ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک بابا جی اور ان کا مریدجنگل سے گزر رہے تھے۔ مرید باباجی سے زندگی کے سبق سیکھنے کی غرض سے شریک سفر ہوا تھا۔ آپ یوں سمجھیں یہ سفر ایک کلاس کی ماند تھا۔ لیکن یہ کلاس دوسری کلاسوں سے بہت مختلف تھی۔ اس میں نہ تو پروفیسر کے پاس وائٹ بورڈ تھا اور نہ ہی مارکر، نہ تو بلیک بورڈ تھا اور نہ ہی اس پر لکھنے کے لئے چاک۔ اسی طرح شاگرد کے پاس نہ تو بال پن تھا نہ ہی کوئی درسی کتاب۔ یہ اے سی، پنکھوں اور ٹیوب لائیٹوں سے چگ مگ کرتی کلاس بھی نہیں تھی۔ بلکہ ایسی کلاسوں کے لئے کوئی مقام یا کوئی جگہ متعین نہیں ہوتی۔ ایسی کلاسیں سائنسدانوں کےتجربہ گاہ کی طرح ہوتیں ہیں جہاں فوراً تجربے کا نتیجہ ظاہر ہو کر یاداشت کا حصہ بن جاتاہے۔ جنگل سے گزرتے ہوئے بابا جی نے ایک سانپ دیکھا، جو بہت زیادہ زخمی حالت میں پڑا تھا۔ بابا جی سانپ اٹھانے لگے تو مرید نے کہا: "باباجی یہ سانپ آپ کو ڈس لے گا آپ اس کے قریب مت جائیں"۔ لیکن باباوں کے اپنے اصول، اپنے زاویے اور چیزوں کو دیکھنے والی اپنی الگ نظرہوتی ہے جن تک ہم عام لوگوں کی فہم نہیں پہنچ پاتی۔ بابا جی نے زخمی سانپ کو اٹھایا اس کی مرحم پٹی کی، اس کے زخموں پر دوا لگائی اور اس کی دیکھ بھال کرتے رہے، یہاں تک کہ سانپ مکمل زندگی کی طرف واپس لوٹ آیا اور اس کے سارےزخم بھی ٹھیک ہو گئے۔ بابا جی سانپ کو جنگل میں واپس چھوڑنے لگے تو سانپ نے ان کے ہاتھ پر ڈس لیا۔ مرید کہنے لگا: "بابا جی میں نے بولا تھا، سانپ کاٹ لے گا آپ اس کو مت اٹھائیں اسکو اس کی حالت پر چھوڑ دیتے تو یہ اپکو نہ ڈستا"۔ باباجی، مرید کی بات سن کر مسکرائے اور اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں بولے۔ "سانپ نے میرا شکریہ ادا کیا ہے"۔ مرید کے چہرے پر حیرانی کے تاثرات دیکھ کر وضاحت کی۔ "سانپ کے پاس ڈسنے کے علاوہ مواصلات کاکوئی طریقہ نہیں تھا اور اس نے میرا شکریہ بھی بارحال ادا کرنا تھا اس لئے اس نے ڈس کر درحقیقت میرا شکریہ ادا کیاہے"۔
زندگی میں بہت سارے مواقع آتے ہیں جب ہمیں ایسے انسان سے تکلیف ملتی ہے، ایسے لوگ ہمیں مایوس کرتے ہیں، ایسے دوست مشکل وقت میں ہمارا ساتھ چھوڑ کر ہمیں دھتکارتے ہیں، جن پر ہم نے بہت سارے احسانات اور بہت ساری مہربانیاں کی ہوتیں ہیں، جن کا ہم نے ساری دنیا کے مخالف جا کر ساتھ دیا ہوتا ہے، اپنی خواہشوں کا قتل کر کے جن کی ہم نے مدد کی ہوتی ہے۔ ایسے انسان کی دی ہوئی تکلیف دوسرے انسانوں کی دی ہوئی تکالیف سے زیادہ درد دیتی ہے۔ کیونکہ ہم اس سے اس رویہ اور اس تکلیف کی امید نہیں کر رہے ہوتے۔ چاہتے نا چاہتے ہوئے، ایسے انسان سے ہم اچھے کی امید اور توقع کر بیٹھتے ہیں جس کے ساتھ ہم نے زندگی میں بہت اچھا رویہ رکھا ہوتاہے۔ کبھی کبھی امیدیں اور توقعات ہم خود پالتے ہیں اور اس کے پیچھے یہی وجہ ہوتی ہے کہ اگر ہمیں اس کی ضرورت پڑی تو یہ بھی ہمارا اسی طرح ساتھ دے گا، یہ بھی ہماری اسی طرح مدد کرے گا، اسکا رویہ بھی ہمارے ساتھ اسی طرح ہوگا جس طرح ہم نے اسکا ساتھ دیا تھا، جس طرح ہم نے اس کی مدد کی دی تھی یا جس طرح ہمارا رویہ اسکے ساتھ تھا۔ لیکن کبھی کبھی خود ہی ہمارا ذہن اس طرح کی توقعات اور امیدوں کے پہاڑ ہمارے سامنے کھڑے کر دیتا ہے اور ہم لاشعوری طور پر اس امید کو اپنے دامن کے ساتھ باندھے پھرتے ہیں کہ مجھے بھی ایسا ہی جواب ملے گا، مجھے بھی اسی طرح کاساتھ ملے گا جس طرح میں نے اسکا ساتھ دیا تھا۔ فرض کریں آپ کوکوئی مشکل ان پڑی ہے اور آپ کے سامنے دو لوگ ہیں، ان دولوگوں میں سے ایک وہ ہے جس کی آپ نے اسی نوعیت کی مشکل دور کی تھی۔ اگر اس موجودہ صورتحال میں دونوں آپ کی مدد کرنے سے انکار کر دیتے ہیں یا اپنا رویہ بدل دیتے ہیں، تو یہ فطری بات ہے ہمیں اس انسان کے انکار کا زیادہ دکھ ہو گا، اس انسان کا رویہ زیادہ تکلیف دے گا جس سے ہم نے شعوری یا لاشعوری طور پر کسی طرح کی امیدیں لگائی ہوتیں ہیں۔ امیدیں ٹوٹنے کے بعد انسان بھی بہت حد تک نفسیاتی طور پر ٹوٹ جاتا ہے۔ وجود کی اس توڑپھوڑ کو روکنے کے لئے اوپر دی گئی کہانی کو ایسے موقعوں کے لئے خصوصاً یاد رکھیں۔ کیونکہ اوپر دی گئی کہانی کے سانپ کی طرح ہر انسان کا اپنا اپنا اپنی اپنی فطرت ہوتی ہے۔ کچھ لوگ آپکا ساتھ دے کر اپنا اور اپنی فطرت کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں اور کچھ لوگ آپکا ساتھ چھوڑ کر اپنا آپ بتا رہے ہوتے ہیں۔ بابابوں میں اور عام انسانوں میں یہ واضح فرق ہوتا ہے، بابے بڑی محنت کے بعد اس مقام تک پہنچے ہوتے ہیں جہاں وہ ایسی باتوں کو بہت آسانی کے ساتھ اپنی زندگی کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ لیکن ہمارے جیسے عام دنیادار انسانوں کے لئے ایسی باتوں کو عملی طور پر زندگی میں شامل کرنا کوئی اتنا آسان نہیں ہوتا، لیکن تھوری سی کوشش سے ہم چھوٹی چھوٹی باتوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنا کر بہت ساری پریشانیوں سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ میں اوپر بیان کر چکا ہوں کہ بعض اوقات ہم لوگوں سے امیدیں باندھ لیتے ہیں لیکن بعض اوقات سہواً بہت ساری امیدیں ہماری ساتھ خود ہی بندھی جاتیں ہیں ایسی امیدوں کے، ایسی توقعات کے ٹوٹنے پر تکلیف، درد اور ذلت محسوس کرنے کی بجائے یہ سوچ کر بھول جائیں کہ اس انسان نے اپنے کے مطابق اپنی فطرت کا اظہار کیا ہے۔ سانپ کے پاس ڈسنے کے علاوہ اپنے جذبوں کا اظہار کرنے کا یا کسی کا شکریہ ادا کرنے کااور کوئی مواصلاتی طریقہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح کچھ لوگ برے وقت میں آپ کو دھتکار کر، آپ کو نظر انداز کر کے درحقیقت آپ کا شکریہ ادا کر رہے ہوتےہیں اور ان کا شکریہ ادا کرنے کا طریقہ یہی ہوتاہے۔
ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ جب بھی کسی کے ساتھ اچھائی کریں، یا کسی پر احسان کریں تو کبھی بھی اللہ کے علاوہ کسی سے اس اچھائی کے انعام کی امید مت رکھیں۔ انسان کی نہ تو کسی کو کچھ دینے کی اوقات ہوتی ہے اور نہ ہی اتنا ضرف ہوتاہے۔ اس لئے اگر کسی کے ساتھ اچھائی کا معاملہ کریں تو کسی قسم کی امید مت باندھیں اور اگر سہواً لوگوں سے امیدیں خود ہی بندھ جائیں تو اوپر دی گئی کہانی کو ذہن میں رکھ کر خود کو سمجھائیں کہ ہر انسان اپنے ضرف اور اپنی فطرت کے مطابق عمل کرتا ہے۔ سکھی رہیں گے۔