میں آج سے "زندگی کی حقیقتیں" کے عنوان سے ایک نیا سلسلہ شروع کر رہا ہوں۔ اس سلسلے میں وقتاً فوقتاً زندگی کی ایسی حقیقتوں کا ذکرکرتا رہوں گا جن کے ساتھ ہمارا بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ زندگی کی کچھ حقیقتیں بہت تلخ ہوتیں ہیں اور ان تلخ حقیقتوں کو قبول کرنا کبھی کبھی ممکن نہیں لگتا۔ لیکن بارحال ان کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح زندگی کی کچھ حقیقتیں بہت خوشگوار ہوتیں ہیں اور ان خوشگوار حقیقتوں سے بچھڑنا مشکل ہوتاہے۔ لیکن ان سے بھی بارحال بچھڑنا پڑتا ہے۔ آج میں زندگی کی ایک بہت ہی تلخ حقیقت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہارکر وں گا۔ اگرایک زندہ انسان کی زندگی کے نقصانات کی فہرست بنائی جائے تو اس میں سب سے بڑا نقصان اس کے کسی پیارے اور بہت ہی پیارے کی موت ہوتی ہے۔ دنیا کا ہر نقصان پورا ہو سکتا ہے، ہر تکلیف کا ازالہ ممکن ہے۔ لیکن یہ ایسا نقصان ہے یہ ایسی تکلیف ہے جس کا ازالہ ممکن ہی نہیں ہے۔ جب کوئی دوسرے سفر پر نکلتا ہے، جب کوئی دریا سے سمندر میں اترتا ہے، جب کوئی مٹی کے نیچے چلا جاتا ہے تووہ کبھی واپس نہیں آتا۔ لاکھ بلا لو، لاکھ آوازیں دیتے رہو، ساری زندگی آنسو بہاتے رہو سب بے سود ہوتا ہے۔ ہماری آوازیں، ہمارے بلاوے مایوسی سے سر جھکائے ہمارے در پر واپس لوٹ آتے ہیں۔ ہمارے آنسو ہم میں ہی جذب ہو کر ہمارا حصہ بنتے رہتے ہیں۔ لیکن جانے والے لوٹ کر نہیں آتے۔ یہی اس دنیا کا دستور ہے، یہی ہماری زندگی کی سب سے بڑی تلخ حقیقت ہے جس کو بارحال ہمیں قبول کرنا پڑتا ہے۔ وہ لوگ جو ہمارا حصہ ہوتے ہیں، وہ لوگ جن سے ایک لمحے کی دوری بھی ہمیں بے چین کئے رکھتی ہے، وہ لوگ جن کی ایک جھلک زندگی میں رنگ بھر دیتی ہے، وہ لوگ جن کی موجودگی ہمیں ہر پل تحفظ کا احساس دلاتی رہتی ہے، وہ لوگ جن کی ہمیں عادت پڑ چکی ہوتی ہے، وہ لوگ جن کی دعائیں ہمیں بلاوں، تکلیفوں اور مصیبتوں سے دور رکھتی ہیں، وہ لوگ جو ہمارے جینے کا مقصد بن جاتے ہیں، وہ لوگ جوسانس کی طرح ہمارے لئے ضروری ہوتے ہیں، وہ لوگ جو سورج کی طرح ہماری زندگیوں کو منور رکھتے ہیں، وہ لوگ جو تاروں کی طرح ہماری زندگی کو جگمگاتے رہتے ہیں۔ وہ لوگ بھی بجھ جاتے ہیں ہم سے دور دوسری زندگی میں چلے جاتے ہیں اور ہماری زندگیوں کو اندھیروں میں دھکیل جاتے ہیں۔ اس کے باوجود زندگی کی ایک بہت بری خوبی ہے اس کی رفتار میں کسی قسم کی کمی نہیں آتی۔ بڑے سے بڑا زخم بھی بھر جاتا ہے، بڑی سے بڑی تکلیف بھی وقت کی گرد میں دھندلا جاتی ہے۔
ہماری زندگی ہماری زندگی نہیں ہوتی، ہماری خوشیاں ہماری اداسیاں، ہماری ہنسی ہمارے آنسو کچھ بھی تو ہمارا نہیں ہوتا۔ ہمارے اردگرد پھیلے رشتے، ہمارے اردگرد پھیلے لوگ، ہمارے اردگرد پھیلے مناظر، ہمارے اردگرد پھیلے رنگ کچھ بھی تو ہمارا نہیں ہوتا۔ اداس شامیں اورخوبصورت صبحیں، صحرا کی گیلی ریت اور فضا میں پھیلی قوس وقزح کچھ بھی تو ہمارا نہیں ہوتا۔ ہماری زندگی تو امانت ہوتی ہے اور امانت کسی نہ کسی دن تو واپس کرنا ہوتی ہے۔
زندگی کی حقیقتیں تلخ ہو ں یا خوشگوار بارحال ان کو قبول کرنا ہوتا ہے۔ تلخ سچائیاں کسی کو اچھی نہیں لگتیں اور خوشگوار لمحوں سے کوئی دور نہیں ہونا چاہتا لیکن یہ زندگی ہے اس کے اپنے کچھ اصول ہیں اور اس زندگی میں ہماری مرضی اور ہمارا ختیار بہت محدور ہے۔ بالخصوص ایسی حقیقتوں کے حوالے سے انسانی اختیار بہت زیادہ محدور ہے۔ بہت سارے لوگ ان حقیقتوں کوتسلیم نہیں کرتے اور ساری زندگی Nostalgia میں گزار دیتے ہیں۔ اس سے صرف اور صرف ان کا اپنا نقصان ہوتا ہے۔ ہر فیصلے کو اللہ کا فیصلہ اور اللہ کی رضا سمجھ کر قبول کریں اور یہ بات ہر وقت اپنے ذہن میں رکھیں کہ اللہ کا کیا ہوا فیصلہ ہمیشہ ہمارے حق میں ہوتا بہتر ہوتا ہے چاہے ہمیں وقتی طور پر اس کی سمجھ آئے یا نہ آئے۔ اللہ تعالی ہم سے بہتر ہمیں جانتا اور ہم سے بہتر ہمارے حق میں فیصلے کرنے والا ہے۔ اگر آپ کی زندگی میں سے آپ کا پیارا یا بہت پیار چلا گیا ہے۔ تو اس تلخ حقیقت کو کھلے دل سے قبول کر کے اپنی زندگی کو نارمل کرنے کی کوشش کریں۔ گئے ہوئے لوگ یاد تو بہت آتے ہیں ان کا یاد آنا، ان کی یاد میں آنسو بہانا، ان کی یاد میں رونا فطرتی عمل ہے لیکن ان کے غم کو روگ نہیں بنانا چاہیے۔