1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. امجد عباس/
  4. سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد کی روک تھام ضروری لیکن

سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد کی روک تھام ضروری لیکن

سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد کی روک تھام ضروری ہے لیکن اِس سلسلے میں احتیاط لازم ہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کسی مذہب کے مقدسات کی توہین جائز نہیں ہے۔ ارشادِ ربانی ہے

وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّ۔ هِ فَيَسُبُّوا اللَّ۔ هَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ كَذَٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِم مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿الأنعام: 108﴾ اور خبردار تم لوگ انہیں برا بھلا نہ کہو جن کو یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہیں کہ اس طرح یہ دشمنی میں بغیر سمجھے بوجھے خدا کو برا بھلا کہیں گے ہم نے اسی طرح ہر قوم کے لئے اس کے عمل کو آراستہ کردیا ہے اس کے بعد سب کی بازگشت پروردگار ہی کی بارگاہ میں ہے اور وہی سب کو ان کے اعمال کے بارے میں باخبر کرے گا۔

اِس آیت مجیدہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ توہین کی سزا اللہ تعالیٰ خود دے گا۔ سوشل میڈیا پر عام طور پر مسلمان ہوں یا دیگر مذاہب سے وابستہ افراد یہ مخالفین کی توہین کرنے سے نہیں چونکتے۔ مسلمان فرقوں کےافراد ایک دوسرے کے مقدسات کی سرعام توہین کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر میرزا غلام احمد قادیانی کو لیجیے، اِسے کیا کچھ نہیں کہا جاتا، جاوید احمد غامدی، غلام احمد پرویز، قاری حنیف ڈار۔۔ ایک لمبی فہرست ہے۔

اللہ تعالیٰ سے لیکر ایک عام آدمی تک کسے یہاں بُرا بھلا نہیں کہا گیا۔ ایسے میں صرف "توہینِ رسالت" کے مسئلے کو مقدم کرنا اور باقی سبھی شخصیات و مقدسات کی توہین کو جائز جاننا غلط ہے۔ سوشل میڈیا پر بلا امتیاز، کسی بھی مذہب و مسلک کے مقدسات کی توہین کرنے والوں کو سزا دینی چاہیے۔ ایک اور بات کی طرف توجہ دینا بھی ضروری ہے کہ توہین کرنے اور نہ ماننے والوں میں فرق روا رکھنا ہوگا۔ توہین کے بغیر، اسلام اور شعائرِ دین پر سوال اٹھانے والوں کو علمی جواب دینا چاہیے، اُنھیں"توہین" کے مرتکب قرار دیکر گرفتار کرنا مناسب رویہ نہیں ہے۔

سننے میں آیا ہے کہ سید سلمان حیدر اور دیگر بلاگروں کی طرح اب ایاز نظامی صاحب کو گرفتار کیا گیا ہے، اُن پر بھی وہی الزامات ہیں۔ ایاز نظامی صاحب میرے ساتھ فیس بُک پر ایڈ ہیں، وہ اپنی ذاتی آئی-ڈی سے محتاط انداز میں سوالات کرتے رہتے ہیں، شنید ہے کہ وہ باضابطہ دیوبندی مدرسہ سے پڑھے ہوئے ہیں، تاہم اُن کی اپنی شناخت کے ساتھ نظر آنے والی تحریریں توہین آمیز نہیں ہوا کرتیں، ہاں اُنھیں علمی جواب دینا چاہیے، زندان میں ڈالنا حل نہیں ہے۔

سوشل میڈیا پر اگر بلا امتیاز توہین اور نفرت پھیلانے والے عناصر کو پکڑا جانے لگا تو سب سے زیادہ تعداد مختلف فرقوں کے مولوی صاحبان کی ہوگی جن کا طریقہ ہی مخالف کو گالی دینا ہے۔ اِس میں دو رائے نہیں ہے کہ کسی انسان کی، کسی مذہب، مسلک کے شعائر اور مقدس شخصیات کی توہین قابلِ قبول نہیں ہے۔ توہین اور نفرت پھیلانے کی روک تھام ہونی چاہیے، لیکن اِس کی آڑ میں علمی رویہ اپنا کر بحث و مباحثہ کرنے والے افراد کو نشانہ بنانا یا خود ساختہ "مفاد" کے خلاف لکھنے والوں کو "توہین کا مرتکب" ظاہر کرکے دھر لینا ہرگز درست نہیں نہ ہی ایسا کوئی اقدام قابلِ قبول ہو سکتا ہے۔