میجر جنرل مہر عمر خان نیازی عمر میں ہم سے تھوڑے سے بڑے ہونگے کیونکہ آج سے تیس سال پہلے گاؤں کے مڈل سکول میں ہم آٹھویں کلاس کے طالب علم تھے تب ہمیں اپنے اساتذہ بڑے فخر سے بتایا کرتے تھے کہ ابراہیم نیازی صاحب کا بیٹا پاک آرمی میں افسر بھرتی ہوگیا ہے تم سب نالائق ہو، تم پڑھتے ہی نہیں ہو حالانکہ اس وقت کے ہمارے تمام ہم جماعت کافی لائق تھے یہ الگ بات ہے کہ ہم آج تک یونہی خاک چھانتے پھر رہے ہیں۔
ہمارے بہت سے دوست بڑے بڑے کاروبار کر رہے ہیں بہت سوں کے پاس دولت کی ریل پیل ہے بہرحال ہم میں سے کوئی بھی کسی اعلی عہدے تک نہ پہنچ سکا ہاں ہماری طرح کوئی ناکام شاعر بھی نہ بن سکا۔ میجر جنرل مہر عمر خان کے والد ابراہیم نیازی ایک سکول ٹیچر تھے ان کا تعلق ہمارے ساتھ والے گاؤں کنہٹ سے ہے جو یونین کونسل پچنند تحصیل لاوہ تلہ گنگ کا ایک پسماندہ ترین گاؤں ہے۔ ابراہیم صاحب ابھی بھی اپنے گاؤں کنہٹ میں ہی رہتے ہیں۔ میجر ریٹائرڈ محبوب خان نیازی مرحوم ستارہ جرات کا تعلق بھی اسی خاندان سے تھا۔
نیازی خاندان میں میجر ریٹائرڈ محبوب خان نیازی مرحوم ان کے بیٹے کرنل ریٹائرڈ عابد خان نیازی بھی اسی پسماندہ ترین علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ میجر نیازی مرحوم ریٹائرمنٹ کے بعد گاؤں میں رہے تب ہم چونکہ چھوٹے تھے لیکن ان سے دعا سلام تھی اور کبھی کبھار گپ شپ بھی ہوجایا کرتی تھی۔ نیازی مرحوم باغبانی کے بہت شوقین تھے اپنے گھر کے قریب ایک باغ بھی لگوایا ہوا تھا۔ گاؤں میں میجر صاحب کا بنگلہ بہت مشہور ہوا تھا لیکن بعد ازاں وہ باغ بھی اجڑگیا نیازی صاحب بھی اللہ کو پیارے ہوگئے اور بنگلہ بھی ویران ہوگیا اور کرنل عابد نیازی توپہلے سے ہی اسلام آباد منتقل ہوگئے تھے اور اب مستقل طور پراسلام آباد میں رہائش پذیرہیں ان سے ہمارا گاہے بگاہے رابطہ رہتا ہے۔
وطن عزیز پاکستان کے بہت سے علاقے شاید آج بھی پسماندہ ہونگے اندرون سندھ کی پسماندگی تو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھی ہے۔ اندرون سندھ کے اپنے نصیب ہم ان کی پسماندگی کاذکر کرنے لگ گئے تو تحریر کافی لمبی ہوجائے گی۔ بہرحال سندھ دھرتی کی پسماندگی کا موازنہ یہاں مناسب ہی نہیں ہے۔ سندھ کا کلچر وڈیرہ شاہی پر مشتمل ہے۔ پورے ملک کے دوردراز علاقے دیکھنے کا اتفاق رہا میرے ناقص علم کے مطابق جتنی پسماندگی سے ہم نبردآزما ہیں شاید ہی کوئی ایسا علاقہ ہو جہاں اس طرح کے حالات ہوں۔
مجھے فخر ہے کہ میری دھرتی نے اتنے قابل باصلاحیت نوجوان پیدا کئے ہیں جو اس وقت مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ اس دھرتی کے سپوتوں نے پیارے وطن پاکستان کی حرمت کے لئے اپنی جانوں تک کا نذرانہ پیش کیا ہے تلہ گنگ اور اس کے اردگرد کے گاؤں دیہاتوں کے قبرستانوں میں لہراتے سبزہلالی پرچم ان عظیم لوگوں کی قربانیوں کی گواہی دے رہے ہیں جو ہمارے جوانوں نے اپنا خون دے کر اس گلشن کا تحفظ کیا ہے۔ میجرجنرل مہر عمرخان ہمارا فخر ہیں بہت سے ایسے نوجوان جو ان علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور اعلی عہدوں پر ہیں دھرتی کے لئے سب قابل فخر ہیں۔
اس دھرتی کے نصیب دیکھیں یہاں کی دیہی زندگی بلاشبہ بہت خوبصورت ہے اس خوبصورتی کے ساتھ ساتھ یہاں کی زندگی بہت مشکل ہے بنیادی انسانی ضروریات ناپید ہیں تعلیم کے لئے مقامی طورپر کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے جس سے ہمارے ہونہار طالب علم مستفید ہوسکیں اور مستقبل میں اس ملک کی خدمت کرسکیں۔ بدقسمتی سے مقامی غریب نوجوان تعلیم سے بالکل محروم ہیں علاج معالجے کے لئے یہاں دوردور تک کوئی ڈھنگ کا ہسپتال نہیں۔ پرائیویٹ ہسپتال یہاں اکثر صرف کاروبار کی حدتک اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔
دیہی علاقے کے مریضوں کو راولپنڈی تک کے مشکل سفر کا سامنا رہتا ہے مقامی آبادیوں کے لوگ ان گنت مسائل میں گھرے ہوئے ہیں ہمارے ان پسماندہ ترین اور دور افتادہ علاقوں کی اس دھرتی کے بیٹے جب اعلی عہدوں تک پہنچ جاتے ہیں تو وہ علاقہ سے اپنا تعلق ختم کردیتے ہیں اور کسی بڑےشہر میں اپنی دنیا بسا لیتے ہیں یوں ان کا آبائی گاؤں سے تعلق صرف رسما باقی رہ جاتا ہے۔ بہت سے کاروباری حضرات اس وقت گاؤں کی مشکل زندگی سے دور بڑے شہروں میں زندگی کی آسانیاں تلاش کرنے میں سرگرداں ہیں۔
میں ان سب سے کہنا چاہتا ہوں کہ اپنی مٹی کا بھی حق ادا کرنا ضروری ہے جس مٹی میں ہمارے والدین محو استراحت ہیں اس مٹی سے وفا کرنا اس کے لئے آسانیاں پیدا کرنا بھی ہم سب کی اہم ذمہ داریوں میں شامل ہے دعا ہے کہ اللہ تعالی اس دھرتی کے تمام قابل فخر سپوتوں کو کامیابیاں وکامرانیاں نصیب کرے ہمیں آپ سب پر فخر ہے۔