نجانے میرے وطن میں ایسے دردناک واقعات کیوں کر جنم لے رہے ہیں کیا معاشرتی حیوانیت اتنی سرچڑھ چکی ہے یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ آج کسی کے گھر میں غموں کے پہاڑ گر رہے ہیں تو یقین رکھیں کل آپ کا بھی نمبرلگ سکتا ہے۔ ہم سب درندگی کی بھینٹ چڑھ سکتے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے تلہ گنگ کے علاقوں میں ایسے کرب ناک واقعات رونما ہورہے ہیں جن کو سن کر دل لرز اٹھتا ہے کلیجہ منہ کو آتا ہے اوربے بسی سے کچھ ہی روز بعد یہ دلسوز اذیت ناک کیفیت ماضی کا حصہ بن جاتی ہے اور ہم سب اسی دنیا میں کھو جاتے ہیں۔ انہیں درندوں کے بیچ پھر سے زندگی چل پڑتی ہے اور پھر کچھ ہی عرصہ بعد اس دھرتی پر ایک نئی دردندگی کی انتہا کی جاتی ہے اور ماضی کے سارے دکھوں کی یاد ایک بار پھر تازہ ہو جاتی ہے۔
بدقسمتی سے یہاں زندگی یوں ہی چل رہی ہے جس گھرانے پر یہ قیامت ٹوٹتی ہے وہ جیتے جی مرجاتے ہیں زندہ لاش بن جاتے ہیں ان کا صدمہ روگ بن کردامن گیر ہو جاتا ہے ایسے لوگ روز جیتے ہیں روز مرتے ہیں۔ گزشتہ روزتلہ گنگ کے نواحی گاؤں ڈہوک فتح شاہ میں گیارہ سالہ بچے انیس الرحمن کے ساتھ جس طرح درندگی کی گئی اور موت کے گھاٹ اتارا گیا ایک باپ کی حیثیت سے میرے پاس وہ الفاظ نہیں ہیں کہ میں اس دکھ کا اندازہ کرسکوں نہ ہی میرے پاس وہ الفاظ ہیں جن سے انیس الرحمن کے باپ کا غم بانٹ سکوں۔ اس بچے کی ماں کے لئے ماسوائے میرے پاس آنسوؤں کے اور کچھ نہیں اللہ تعالی انیس الرحمن کے والدین کو صبردے اور اتنے بڑے غم کوجھیلنے کا حوصلہ دے اس بچے سے زیادتی کے بعد جس طرح تشدد کرکے مارا گیا وہ سب سن کر دل دہل جاتا ہے۔
انیس الرحمن کی نعش کو بدبخت قاتل نے تیزاب ڈال کر بالکل ختم کرنے کی کوشش کی، گھر کے گٹر سے لاش برآمد کی گئی تو بچے کا چہرہ اور سینہ تیزاب کی وجہ سے ختم ہوچکا تھا۔ اس کی ماں کو اپنے بیٹے انیس الرحمن کے صرف پاؤں دکھائے گئے یہ ماں کس کرب سے گزری ہوگی جب اس کے لخت جگر کی لاش کو لایا گیا ہوگا اور چہرہ تک سلامت نہ تھا، اللہ اس عظیم ماں کو دکھ کی اس ہولناک گھڑی میں صبر عطا فرمائے۔ اس گھرانے کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی ان کے بدبخت پڑوسی نے اپنی شیطانی ہوس میں ان کے گھر کا چراغ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بجھا دیا۔
میں اس سے قبل بھی بارہا ایسے واقعات پر اپنے لوگوں کو اپنی تحریروں سے یہ آگہی دینے کی کوشش کرچکا ہوں کہ خدارا اپنے بچوں پرگہری نظر رکھیں ان کے اردگرد بہت سے درندے شیطانی کھیل کھیلنے کے لئے دندتاتے پھر رہے ہیں ان درندوں سے بچاؤ کے لئے والدین اپنا کردار ادا کریں۔ یہ ضروری نہیں کہ یہ درندے صرف آپ کے پڑوسی ہی ہوں یہ بدبخت سکول میں بھی پائے جاسکتے ہیں مساجد مدارس میں ایسے گھناؤنے کھیل کھیلے جاچکے ہیں۔ معاشرتی طور پر ہم اس وقت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ہمیں اپنے اردگرد گہری نظر رکھنا ہوگی وگرنہ ایسے اذیت ناک اور کربناک واقعات جنم لیتے رہیں گے اور والدین بے بسی اور پھیکی زندگی جی کر اس دنیا سے گلے شکوے کرکے رخصت ہوتے رہیں گے۔
اپنے بچوں کی تربیت اس انداز میں کریں ایسا دوستانہ ماحول پیدا کریں کہ وہ ایسے بدبختوں کی درندگی سے ہوشیار رہیں اور اپنے اردگرد اچھے برے کی تمیز کرسکیں۔ تہذیبی اعتبار سے ہم ایک پرامن اور غیرت مند علاقے کے باشندے کہلائے جاتے ہیں اپنے ماضی کی اقدار اور روایات کو زندہ رکھنے کے لئے اپنا پورا کردار ادا کریں۔ ہمارے ہاں بہت سے ایسے ناخوشگوار اور افسوسناک واقعات ہورہے ہیں یہاں بہت سارے ایسےکھیل کھیلے جارہے ہیں جو رپورٹ بھی نہیں ہوتے خدارا ہم سب اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں اور ایسے دردناک اذیت ناک اور کربناک واقعات کی روک تھام کے لئے اپنا عملی کردار ادا کریں وگرنہ یہ درندے آپ کے جینے کا حق چھین لیں گے اور کبھی نہ ختم ہونے والے غم آپ کو گھیر لیں گے۔
ڈہوک فتح شاہ واقعہ کا بدبخت قاتل اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ تھانہ ٹمن پولیس حراست میں اسے ہارٹ اٹیک ہوگیا ہے اور یوں اس دھرتی پر ایک بوجھ تو اترگیا ہے لیکن ہماری ذمہ داریوں کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔ سنا ہے کہ ڈہوک فتح شاہ کے لوگوں نے اس کا جنازہ پڑھنے سے انکار کردیا اور اپنے قبرستانوں میں اسے دفن کرنے سے روک دیا ہے لیکن مقامی پولیس نے اسے قبرستان میں کہیں دفن کروا دیا ہے۔
آخرمیں۔۔ میں ایک بارپھر انیس الرحمان کے والدین کے لئے دعاگو ہوں کہ اللہ تعالی ان کو اپنے لخت جگر کی جدائی کا صدمہ برداشت کرنے کی ہمت عطا فرمائے اور صبرجمیل دے۔۔
اللہ تعالی ہم سب کا حامی وناصر ہو۔۔