1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. فیصل رمضان اعوان/
  4. مہنگائی کا بے قابو جن اور غریب عوام کی حالت زار

مہنگائی کا بے قابو جن اور غریب عوام کی حالت زار

وطن عزیز پاکستان کا یہ کیسا نظام ہے جودولت تو پیدا کررہا ہے لیکن عام آدمی کی زندگی کو اجیرن کر دیا گیا ہے۔ بنیادی انسانی ضروریات کی تمام چیزیں انتہائی مہنگی کردی گئی ہیں اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کررہی ہے۔ بجلی اور گیس کے بلوں نے غریب عوام سے جینے کا حق چھین لیا ہے۔ ہر عام آدمی اس مشکل وقت میں پریشانی کا شکار ہے۔ چہروں سے مسکراہٹیں گویا چھن گئی ہوں۔

جسم وجاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے ہر شخص رزق حلال کے لئے محنت مزدوری کررہا ہے لیکن اس محنت مزدوری کی اجرت سے غریب کا چولہا ٹھنڈا ہی رہتا ہے۔ ہنستے بستے میرے گلستان کو اچانک کیا ہوگیا وہ قیامت کب آکرگزر گئی جس نے میرے وطن کے غریبوں کو رلادیا۔ آج بجلی کے ظالمانہ بل دیکھیں تو یقین کریں رونے کو جی چاہتا ہے۔ یہ لٹی قوم کیسے جئیے گی کیا اس بے بس قوم کا یہی مقدر ہے۔

یوں تو اس ملک کے قائم ہونے سے آج تک اس کو بے دردی سے لوٹا گیا بدمست حکمرانوں نے ہردور میں اس غریب عوام کو خوب تر لتاڑا لیکن اس سے برے حالات تو کبھی نہ دیکھے تھے جو آج دیکھنے پڑ گئے ہیں۔ بے لگام مہنگائی کے تابڑ توڑ حملے بدستور جاری ہیں۔ سوشل میڈیا کے زمانے کو کارگر دیکھتے ہوئے ہمارے حکمرانوں نے مہنگائی کو مات دے دی ہے اور سب اچھا کی خبریں چل رہی ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مہنگائی کا جن صرف سوشل میڈیا پر قابو کرلیا گیا ہے ورنہ حقیقی دنیا میں حالات اس کے بالکل برعکس ہیں۔

مہنگائی کا جن آئے روز بے قابو ہوتا جا رہا ہے بلکہ اب تو یہ جن من مانیوں پر اتر آیا ہے غریب کیسے جئیے گا کسی کو پرواہ نہیں کاش کسی روز ان غریبوں پر مسلط حکمران اپنے اقتدار کے ایوانوں سے نکل کرکسی غریب بستی کا رخ کرلیں سرشام ڈوبتے سورج کے ساتھ غریبوں کے دل کیسے ڈوب رہے ہیں، مائیں اپنے بچوں کو کس مشکل سے پال رہی ہیں باپ کس حال میں تھکاوٹ سے چورچور ہوکر واپس گھروں کو لوٹتے ہیں اور بجلی کے بل دیکھ کر کس کرب سے گزرتے ہیں۔

کاش کبھی ان حکمرانوں کا ان بستیوں کا چکر لگ جائے، کیا پیارے پاکستان کے محب وطن یونہی گزرتے جائیں گے کیا یہ ستم یونہی جاری رہیں گے آج ہرطرف سے آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ یہ ملک رہنے کے قابل نہیں رہا بھلا کوئی اپنے گھر کو چھوڑ کر بھی خوش رہ سکا ہے۔

یہ ملک ہم سب کا ہے ہم دل وجاں سے اس سے عشق کرتے ہیں اس کو حاصل کرنے کے لئے ہمارے آباؤ اجداد نے خون دے کر اس گلشن کی آبیاری کی ہے۔ اس کی بنیادوں میں ہمارے بزرگوں کا خون شامل ہے۔ اتنی قربانیوں کے بعد اس کو کون چھوڑ سکتا ہے لیکن مایوسیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیرے ہیں ان اندھیروں کے سنگ کیسے رہا جائے۔ نجانے بجلی کے ظالمانہ اور بھاری بل کے اتنے پیسے کہاں جارہے ہیں کون غریب کی بے بسی سے فائدہ اٹھا رہا ہے کون اتنا عیاشی میں اتنا آگے نکل گیا ہے کہ خدا کی خدائی اسے صرف اپنی عیاشی کا ساماں نظر آرہی ہے۔

کون غافل اس خیال میں گم ہے کہ اس کی چاردن کی عیاشی جاری رہے لیکن دوسری طرف ان غریبوں کی نسلیں برباد کرنے پرتلا ہوا ہے خداراہوش کے ناخن لیں اتنا ظلم کریں جس کی کوئی حد ہو حدوں کو کراس کریں گے تو آپ خود بھی نہیں بچ پائیں گے۔ رب ذوالجلال کی لاٹھی بے آواز ہے اس پاک ذات کا خوف کرلیں اپنی بدمستیوں اور ہٹو بچو کے لئے غریب کو ایندھن نہ بنائیں غریب کا سوچیں اسے جینے دیں مہنگائی کو روکیں بجلی کے بل کم کریں۔ اپنی ماضی کی تاریخ پڑھیں ظالم حکمرانوں کے انجام سے سبق حاصل کریں ظالم حکمران کیسے عبرتناک انجام سے دوچار ہوئے تاریخ سے ہی سبق سیکھ لیں کیونکہ اس وقت وطن عزیز پاکستان کے عام عوام پرمعاشی ظلم کیا جارہاہے اور اس ظلم کا حساب بھی آپ نے ہی دینا ہوگا۔

فیصل رمضان اعوان

Faisal Ramzan Awan

فیصل رمضان اعوان روزنامہ اساس روزنامہ، جناح اور دیگر قومی اخبارات میں کالم لکھتے ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ایک نجی کمپنی میں جنرل منیجر ہیں۔