8 فروری 2024ء کو پاکستان کے بارہویں عام انتخابات کے موقع ہم اپنے حق رائے دہی کے لئے دور اپنے گاؤں میں موجود تھے۔ ایک چھوٹے سے گاؤں میں لوگ ایک نئے جوش و جذبہ کے ساتھ اپنے ووٹ کا حق ادا کرنے پہنچے ہوئے تھے کیونکہ یہ الیکشن ملک کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل تھے۔ ہمیں بتلایا گیا کہ ملک انتہائی نازک موڑ سے گزر رہا ہے ہم تباہی کے دہانے پرہیں معاشی طورپر ہم دیوالیہ ہونے والے ہیں۔
ہم بھی صبح ہوتے ہی پولنگ سٹیشن پر پہنچ چکے تھے۔ بدترین بحران کی شکار ملکی معیشت پر باتیں ہوتی رہیں بہت سے لوگ بجلی کے ظالمانہ بلوں پر گفتگو کرتے رہے۔ دوستو یاد رہے کہ تب بجلی کے بل آج سے چار پانچ گنا کم آرہے تھے۔ کچھ لوگ پنجاب کے آج کے حکمرانوں کے مفت بجلی دینے کے وعدوں پر داد دیتے رہے اور بہت خوش دکھائی دیئے کہ چلواب بجلی کے ناجائز اور ظالمانہ بلوں سے تو نجات ملے گی۔
یقین کریں خوش فہمیوں میں مبتلا ہمارے لوگ واقعی بہت خوش دکھائی دے رہے تھے۔ ہم نے الیکشن کے بعد گاؤں میں موجود اونچے ٹیلوں پر فروری کی دھوپ میں بیٹھ کر ایک کالم بھی لکھا تھا۔ گاؤں میں چونکہ بندہ دنیا سے کٹ سا جاتا ہے کیونکہ ہمارے دوردراز علاقے آج کے تیز ترین دور میں بھی زندگی کی بنیادی سہولیات اور ذرائع ابلاغ سے بالکل محروم ہیں۔ اس روزانٹرنیٹ کی بندش نے بھی ہمیں ملک بھر کی خبروں سے محروم کر رکھا تھا لیکن تب ہم نے دیہاتی ذہنیت رکھنے کے باوجود ایک کالم لکھا تھا۔
ان انتخابات کو پراسرار سے الیکشن کہا تھا ہمارے کالم میں بہت سے خدشات کا ذکر تھا ہم نے یہ بھی لکھا تھا کہ نجانے ایک ہی سیاسی جماعت کے بینرز فلیکس بورڈ اور ووٹرز کو پولنگ سٹیشن پرلانے والی ویگنیں سب کچھ ایک ہی سیاسی جماعت کا۔۔ یہ سب کیا ہے ان کا مدمقابل کون ہے لگتا ہے ان کا مقابلہ یہاں کی عوام سے ہے ہمارا یہ کالم، گاؤں کے پولنگ اسٹیشن سے، ہمارے وال پر پڑھا جاسکتا ہے۔
خیر ایک دیہاتی ہونے کی وجہ سے ہمارے خیالات سے گو کہ اتفاق نہ کیا جائے لیکن بہرحال وہ خدشات درست ثابت ہوئے اور مفت بجلی کے لالچ میں خوش ہونے والے ہم سب موجودہ حکومت کے قیام کے بعد ان کے ظلم کا ایسے شکار ہوئے کہ ہمارے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ چنگیزخان اور ہلاکوخان کے ظلم بے اختیار یادآنے لگے وہ خونخوار درندے لوگوں کو مار کر کھوپڑیوں کے مینار کھڑے کرتے تھے۔ بے شک وہ حددرجے کے ظالم تھے سفاک تھے لیکن زندگی کے غموں سے تو نجات دے دیتے تھے۔
آج ہم سب کو واپڈا گردی کے ظلم نے وہاں پہنچا دیا ہے جہاں غم ہی غم ہیں غریب لوگ اپنی بچیوں کے زیور موٹرسائیکل بیچ کر حتی کہ گھر کا سامان بیچ کربل اداکرنے پرمجبور ہیں۔ نہیں معلوم ظلم کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہے اور حکمران جو واپڈاگردی میں برابر کے شریک ہیں کب تلک ان سے نجات ملے۔
لگتا ہے ہم چوپٹ راجا کی بستی اندھیرنگری میں پہنچ چکے ہیں اور چوپٹ راج قائم ہوچکا ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کے لئے آسانیاں فرمائے۔۔