ہم نے کہا تھا دل کو سنبھالا بھی کیجیے
یہ کب کہا تھا یوں ھمیں رُسوا بھی کیجیے؟
دل میں اُتر گئے ھیں کہ دل سے اُتر گئے؟
فُرصت کبھی ملے تو یہ سوچا بھی کیجیے
یہ کیا کہ ھر قدم پہ ھے رسوائیوں کا خوف
جب عشق ہو گیا ھے تو چرچا بھی کیجیے
ھم نے کہا تو تھا کہ بھُلانا نہیں کبھی
دنیا یہ کہہ رہی ھے تو ایسا بھی کیجیے
دل مانگنے کی شے نہیں، مانگا نہیں گیا
وہ کہہ رہا تھا ھم سے، تقاضا بھی کیجے
دل کو کوئی چُرا کے کہیں لے گیا حضور!
سینے میں جھانک کر کبھی دیکھا بھی کیجیے
مانا کہ آپ ھم سے نہیں بےخبر، مگر
تکنے کے ساتھ ساتھ پُکارا بھی کیجیے
ممکن ھے پوچھ لے کوئی اُلجھا ھوا سوال
اِس آئینے کے سامنے ٹھہرا بھی کیجیے
پل بھر کلی چٹک کے، مہکتی رہے بتول!
چنچل سی لٹ کو اِس طرح چھیڑا بھی کیجیے