انکار بھی نہیں ھے تو اقرار بھی نہیں
وہ شخص دل لگانے کو تیار بھی نہیں
سوچا تو دور دور تلک فاصلہ ملا
دیکھا تو صحن میں کوئی دیوار بھی نہیں
دونوں جگہ پہ ایک ہی منظر ملا مجھے
اِس پار دل نہیں تھا تو اُس پار بھی نہیں
چلنا تھا دور تک ہمیں اک ساتھ ہاں مگر
تم چاھتے نہیں ہو تو اصرار بھی نہیں
جتنا لحاظ کرنا تھا ہم نے تو کر لیا
وہ بے وفا نہیں ھے تو غمخوار بھی نہیں
خوابوں کو جا کے بیچ دے، آنسو خرید لے
اِتنا غیور آج کا فنکار بھی نہیں
آسان بھی نہیں تھا اُسے بھولنا مگر
سچ پوچھیے تو یہ کوئی دشوار بھی نہیں
جتنا خلوص آپ نے ہم کو دیا حضور!
اتنا خلوص تو ہمیں درکار بھی نہیں
کچھ دل کو یوں بھی بھاگیا دشتِ جنوں بتول!
اور کچھ بچھڑ کے ملنے کے آثار بھی نہیں