عشق کرنے کے لیے میں نے سمندر دیکھا
پھر نیا خواب نئے خواب کے اندر دیکھا
ورنہ آنکھوں میں دھواں،دل میں کسک رہ جاتی
اُس نے اچھا ہی کیا مجھکو پلٹ کر دیکھا
خود میں گُم،لوگوں میں تقسیم لگا تھا مجھکو
میں نے اُس شخص کو جاتے ہوئے اکثر دیکھا
فاصلہ دیکھ کے دونوں کا میں چکرا سی گئی
ترا لہجہ کبھی دیکھا , کبھی پیکر دیکھا
جس کے نعرے کی صدا سُن کے فلک کانپ اُٹھے
میں نے سہون کی گلی میں وہ قلندر دیکھا