جواب جو بھی ھو ھم نے سوال کر تو دیا
وفا کے دشت میں خود کو، مثال کر تو دیا
وفا کا اور کوئی کیا ثبوت دیں کہ تمھیں؟
خود اپنے ہاتھ سے دل کو، نکال کر تو دیا
اب ھمکو دیکھ کے، تم کو ہنسی تو آئےگی
محبتوں نے فقیروں سا حال کر تو دیا
ناممکنات بھی لفظوں کا ھیر پھیر ہے بس
تمھارے لہجے نے شیشے میں بال کر تو دیا
بچھڑتے پل کا ھمیں ضبط کام آیا مگر
اُس ایک ضبط نے ھم کو نڈھال کر تو دیا
اب اسکو سینت کے رکھٌو، اگر ضرورت ہے
حوالے آپ کے، سانسوں کا جال کر تو دیا
کہا، بتول! محبت میں کیا کمال کیا؟
لو تم کو بھول گئے ھیں، کمال کر تو دیا