لوگ کہتے رہے ستارہ تھا
آسمانوں میں وہ اشارہ تھا
میں نے دونوں کو ہی بُھلا ڈالا
کچھ محبت تھی کچھ خسارہ تھا
وصل اک خواب، آخری ہچکی
عشق ہجرت کا استعارہ تھا
تم نے بس ہاتھ ہی تو چھوڑا ھے
کون سا تم نے تیر مارا تھا
جسکو سمجھا تھا یہ محبت ھے
وہ تو حرفِ سُخن تمھارا تھا
ڈوبتے پل مجھے خیال آیا
اِس سمندر کا اک کنارہ تھا
دل میں کیوں درد ہو رہا ھے بتول!
وہ تو اک عارضی سہارہ تھا