ملا دیار اسے بھی نہیں ہمیں بھی نہیں
گلوں سے پیار اسے بھی نہیں ہمیں بھی نہیں
کبھی تو دل کو نصحیت کرے کوئی آ کے
کہیں قرار اسے بھی نہیں ہمیں بھی نہیں
مرے بغیر کوئی بے قرار رہتا ھے
یہ خلفشار اسے بھی نہیں ہمیں بھی نہیں
وہ دل سے ہمکو نکالے یہ کیسے ممکن ھے؟
یہ اختیار اسے بھی نہیں ہمیں بھی نہیں
وہ اعتبار جو بنیاد ھے رفاقت کی
وہ اعتبار اسے بھی نہیں ہمیں بھی نہیں
دیے دریچے پہ رکھے جسے ضرورت ہو
اب انتظار اسے بھی نہیں ہمیں بھی نہیں