مقٌدر پھر سے آڑے آ گیا نا؟
دیا خورشید سے ٹکرا گیا نا؟
کہا بھی تھا کہ پلکیں موندنا مت
کسی کا خواب پھر چونکا گیا نا؟
بُھلا بیٹھے تھے جسکو تم اچانک
پھر اگلے موڑ پر ٹکرا گیا نا؟
مری حالت پہ تم حیرت زدہ تھے
تمہیں بھی دشت آخر بھا گیا نا؟
ذرا بھی پاؤں میں لرزش نہیں ہے
ہمیں کانٹوں پہ چلنا آ گیا نا؟
اسے جاتے ہوئے دیکھا ہی کیوں تھا
وہ منظر آنکھ میں پتھرا گیا نا؟
وہی ملنا، بچھڑنا، ٹوٹ جانا
کہانی وقت پھر دہرا گیا نا؟
محبت اِس جہاں کی شے نہیں ہے
سمجھ میں اب تمہاری آ گیا نا؟
سوا نیزے پہ سورج آ گیا ہے
شجر کا وہ گھنا سایہ گیا نا؟
کہا تھا ہجر پلکوں سے نہ چُننا
اماوس آنکھ میں ٹھہرا گیا نا؟
بتول! آخر یہ سر میں آ سمایا
ہمارے ہاتھ سے سودا گیا نا؟