نظر کی پارسائی مانگ لی تھی
محبت انتہائی مانگ لی تھی
فقط اُسکو ہی مانگا تھا خدایا!
کوئی ھم نے خدائی مانگ لی تھی؟
کہا یہ وصل کی سوغات تیری
مگر اُس نے جُدائی مانگ لی تھی
مزاج اپنا بھی تھا بیزار ـــ اِس پر
کسی نے کج ادائی مانگ لی تھی
زباں پر اُس کے تالے تھے کسی نے
مرے حق میں گوائی مانگ لی تھی
وہ کانٹوں میں ہی اُلجھا جا رہا تھا
گُلوں سے آشنائی مانگ لی تھی
ہمیں بےموت مرنا پڑ گیا ھے
کسی کی موت آئی مانگ لی تھی
اُسے اشکوں کی دولت دے چُکے ہیں
کہ اُس نے کُل کمائی مانگ لی تھی
بتول! اچھا نہیں تھا عشق کافر
ہمی نے جگ ہنسائی مانگ لی تھی؟