نیند کے شہر کو جاتے ہیں تو تھک جاتے ہیں
خواب کا بوجھ اُٹھاتے ہیں تو تھک جاتے ہیں
کس طرح پلکیں اٹھا کر تری جانب دیکھیں؟
ہم تو پلکوں کو گراتے ہیں تو تھک جاتے ہیں
پوچھئے ہم سے، دل و جاں ہوئے زخمی جن کے
آپ تو تیر چلاتے ہیں تو تھک جاتے ہیں
لوٹ آئے گا مسافر، کوئی اُمید نہیں
اس لئے دیپ جلاتے ہیں تو تھک جاتے ہیں
ان کی محفل کی طرف کس طرح جائیں کہ یہاں
دھوپ سے سائے میں آتے ہیں تو تھک جاتے ہیں۔۔
اب کسی اور اُفق پر ہی چمکتا ہے وہ چاند
خود سے یہ بات چُھپاتے ہیں تو تھک جاتے ہیں
تُو نے کیا بوجھ بنا کر ہمیں بھیجا ہے گلاب
اِس کی خوشبو کو بھی پاتے ہیں تو تھک جاتے ہیں
لے کے جائیں جو کسی کو نئی منزل کی طرف
راستے لوٹ کے آتے ہیں تو تھک جاتے ہیں
یہ تغیر ہے زمانے کا کہ کلیوں کو بتول!
رازِ دل بھنورے سُناتے ہیں تو تھک جاتے ہیں