تیری آنکھوں میں جو تصویر پرائی دیکھی
ڈوبتا دل ہی نہیں دیکھا، خُدائی دیکھی
کتنا سوچا تھا لکھوں خط میں جو گزری دل پر
بارہا میں نے وہ تحریر مٹائی، دیکھی
شہر والوں نے تماشا کیا، اچھا ہی کیا
میں نے خود لُٹتی ہوئی دل کی کمائی دیکھی
بارشوں نے مری آنکھوں سے کہا جانے دو
میں نے یادوں کی جو کچھ راکھ اُڑائی، دیکھی
راکھ کے ڈھیر میں کیا ڈھونڈ رہی ھے تُو بتول!
آگ جنگل میں بتا کس نے لگائی، دیکھی؟