عجب خدشہ سا رہتا ہے، کبھی کوئی، کبھی کوئی
کہ اس پہ مرتا رہتا ہے، کبھی کوئی، کبھی کوئی
ترا در بھی مری جاناں، کوئی کیلے کا چھلکا ہے
جہاں ہر دم پھسلتا ہے، کبھی کوئی، کبھی کوئی
ترا محبوب ہونا جانِ من، سرکاری عہدہ ہے
جہاں افسر بدلتا ہے، کبھی کوئی، کبھی کوئی
محبت گویا اُس کی ایک عالمگیر نقشہ ہے
کہ جس میں رنگ بھرتا ہے، کبھی کوئی، کبھی کوئی
ترے گھر آئے جب بھی، اپنی کرسی لے کے آئیں گے
ترے پہلو میں ہوتا ہے، کبھی کوئی کبھی کوئی
ادا بھی اور لطف ومہر بھی، غیروں کا حصہ ہے
ہمیں کاموں پہ رکھتا ہے، کبھی کوئی، کبھی کوئی
غضب کا بے وفا ہے، پھر بھی ہم محفل میں بیٹھے ہیں
بہانے ایسے گھڑتا ہے، کبھی کوئی، کبھی کوئی
یہ دل توحید کا قائل، مگر مسلک میں مشرک بھی
حسینوں پر مچلتا ہے، کبھی کوئی، کبھی کوئی
تخیّل ہے ترا، برسات کے تالاب سا حامد
جہاں مینڈک اچھلتا ہے، کبھی کوئی، کبھی کوئی
مسیحائی ہماری، چارہ گر، اک کارِ مشکل ہے
جہاں ہر زخم رِستا ہے، کبھی کوئی، کبھی کوئی
ہمارا ملک گویا، ایک نوٹنکی کا تھیٹر ہے
جہاں پر کھیل جمتا ہے، کبھی کوئی، کبھی کوئی
وہی اک داستاں، کردار بھی ویسے کے ویسے ہیں
فقط ایکٹر بدلتا ہے، کبھی کوئی، کبھی کوئی