1. ہوم/
  2. غزل/
  3. حامد عتیق سرور/
  4. کچھ سیلِ بلاخیز سے ڈرتا نہیں ہوتا

کچھ سیلِ بلاخیز سے ڈرتا نہیں ہوتا

کچھ سیلِ بلاخیز سے ڈرتا نہیں ہوتا
وہ، جس کا گھروندا، لبِ دریا نہیں ہوتا

ڈوبی ہوئی بستی میں غریبوں ہی کے گھر تھے
دریا کا غضب، سوئے ثریا نہیں ہوتا

بے نام شہیدوں کا لہو، خاک میں مل کر
کچھ لالہ و گل، چاند ستارا نہیں ہوتا

دُھل جاتا ہے، قیصر کی قبا پر نہیں رہتا
خلقت کا لہو، رنگ میں گہرا نہیں ہوتا

یوں خاک سی اڑتی ہے مرے خانہءِ دل میں
قرنوں سے جیوں کوئی بھی ٹھہرا نہیں ہوتا

رہتا یونہی بے لطف و تہی، دامنِ یوسف
جویا جو کہیں، دستِ زلیخا، نہیں ہوتا

کھو دینے کا دھڑکا تو کبھی وہمِ رقابت
فرقت میں تری یاد میں کیا کیا نہیں ہوتا

اب کوئی دوا نامہ و پیغام سے بڑھ کر
بیمارِ محبت ترا اچھا نہیں ہوتا