تلقین کیلئے بہت ضروری ہے کہ آپ کی جانب سے کی جانے والی تلقین پرآپ خود بھی عمل پیرا ہوں، عملی مظاہرہ کرتے رہے ہوں۔ دنیا کوتو چھوڑ دیں صرف اپنے ملک میں مساجد، درس و تدریس کے اداروں سے لیکر گھر گھر میں تلقینوں اور نصحیتوں کا ہر فرد نے ہی بیڑا اٹھا رکھا ہے اور یہ دیگر وجوہات میں سے ایک وجہ ہے کہ نسلی فاصلہ بڑھتا ہوا محسوس ہوتا ہے، عمل سے عاری تلقین ہو یا نصحیت دیر پا نہیں ہوتی۔ عالم بے عملوں کی بہتات ہوچکی ہے جوکہ علم کیلئے باعث نقصان بنتا جا رہا ہے۔ غور طلب بات ہے کہ کوئی تو وجہ ہوگی کہ اساتذہ اپنی روائیتی عزت سے محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں، بزرگوں کی صحبت میں بیٹھنے کو نئی نسل وقت کی بربادی سمجھنے لگی ہے جہاں دیگر وجوہات بھی اس عمل کا حصہ ہیں ان میں سے ایک اہم اور بنیادی وجہ بے عمل عالموں کی بہتات بھی ہے۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی، جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نوری ہے نہ ناری ہے
اسلام کی بنیاد بھی ہمارے پیارے نبی ﷺ کی عملی زندگی ہے، آپ ﷺ کی عملی زندگی ہی اسلام ہے اس میں چاہے معاشرت ہویا معیشت، آپ ﷺ نے اپنی عملی زندگی سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنایاجسکا منہ بولتا ثبوت؛ اسلام کے اعلان کے بعد بھی کفار کا آپ ﷺکے پاس اپنی امانتیں رکھوانا ہے اور آپ ﷺ کے صادق اور امین ہونے کی گواہی دینا ہے۔ پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو اپنے پیارے نبی ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں زندگیاں بسر کررہے ہونگے (ہونگے کا لفظ اس لئے استعمال کیا ہے کیونکہ ایسے لوگوں کا پتہ چلانا مشکل کام ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ سے سچی عقیدت و محبت کرنے والے ہر وقت دنیا کے ہر کونے میں موجود ہوتے ہیں)۔
گزشتہ ستر سالوں میں شائد ہی ایسا ہوا ہو کہ کسی نے حکومتی امور میں ردو بدل کرنے کا سوچا ہو، اسکی وجہ ان مشکلات کی وجہ ہوتی رہی ہے جو جانے والی حکومت آنے والی حکومت کیلئے چھوڑکے جاتی ہے۔ نومولود پاکستانی حکومت جس پر ملک کے ہر تجربہ کار فرد کو کسی نا کسی قسم کے تحفظات ہیں اور یہ تمام مختلف امور کے تجربے کے باعث اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت جو دعوے کر بیٹھی ہے وہ انہیں پورے نہیں کر پائے گی۔ پاکستان کو آج ترقی کی راہ پر گامزن کرنے والوں کو اس بات پر بنیادی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہر پاکستانی میں برداشت کا مادہ پیدا کرنے کی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جائے۔ صرف خاص ثقافت (وی آئی پی کلچر)کے خاتمے کے اعلان سے یا پھر کسی حد تک خود عمل کر کے دیکھانے سے اتنا اثر نہیں پڑنے والا جتنے کی ہمیں حقیقی معنوں میں ضرورت ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جہاں کہیں بھی یہ لکھا گیا ہے کہ کیمرے کی آنکھ آپکو دیکھ رہی ہے تو وہاں لوگوں کا رویہ محتاط دیکھائی دیتا ہے چاہے وہ کیمرے کی آنکھ وہاں موجود ہی نا ہو (اور اس آنکھ کی کبھی فکر ہی نہیں کہ جب اپنی آنکھ بھی نہیں دیکھ رہی ہوتی تو وہ آنکھ تب بھی دیکھ رہی ہوتی ہے)، عوامی مقامات (پبلک پلیسس) پر باقاعدہ سرکاری سطح پر تواتر سے اخلاقیات اور برداشت کیلئے اعلانات کرائے جائیں کہ جن کی بدولت عوام میں معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت بیدار کی جائے۔ خصوصی طور پر تمام نقل و حمل کے ذرائعے کے اڈوں پر بذریعہ لاؤڈ اسپیکر قطار میں لگے رہیں، سامان رکھنے کی جگہ پر رکھیں، بزرگوں اور معذور افراد کا خصوصی خیال رکھیں، کچرا کوڑے دان میں پھینکیں، اپنی باری کا انتظار صبر و تحمل سے کریں اور کسی بھی قسم کی پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے تو برائے مہربانی انتظامیہ سے رابطہ کریں جیسے اعلانات گاہے بگاہے کرتے رہیں اور انتظامیہ کے لوگ کیمروں کے ذریعے کسی بھی بد نظمی پیدا کرنے والے شخص کے ساتھ بذریعہ اعلان معالمے کو احسن طریقے سے نمٹائیں۔ کوئی بھی حادثہ رونما ہونے کی صورت میں زیادہ تر نقصان بھاگ دوڑ کے نتیجے میں ہوتا ہے اگر تھوڑا برداشت سے کام لیں تو نقصان کم سے کم تر ہوسکتا ہے چاہے وہ نقصان انسانی جانوں کا ہی کیوں نا ہو۔ سرکاری اخراجات اور دیگر غیر سرکاری اداروں کے توسط سے مختلف پمفلیٹ چھپوائے جائیں اور مختلف چوراہوں پر پیدل چلنے والے پل پر ایسے پیغامات آویزاں کئے جائیں کہ جن میں برداشت کی اہمیت کیساتھ ساتھ فوائد بھی جلی حروف میں تحریر کئے جائیں۔ فوری طور پر سڑکوں پر چلنے والی ہر قسم کی گاڑی چلانے والے کیلئے لائیسنس لازمی قرار دیا جائے بصورت دیگر گاڑی ضبط کرلی جائے۔ احساس ذمہ داری بھی اجاگر ہوجائے تو یہ برداشت پیدا کرنے میں اپنا قلیدی کردار ادا کرسکتی ہے اسی طرح معاملات کو اپنانے سے بھی برداشت پروان چڑھتا ہے۔
امید کی جاسکتی ہے کہ اس طرح کے بنیادی اقدامات سے قوم میں وہ شعور بیدار ہونا شروع ہو جائے جو ترقی کی شاہرہ پر گامزن ہونے کیلئے درکار ہے۔ ہمارے اندر جب تک برداشت نہیں پیدا ہوگا ہم کچھ بھی کر لیں اچھے سے اچھے لوگوں کو ذمہ داریاں سونپ دیں لیکن عام آدمی میں برداشت کا مادہ پیدا نہیں کرپائینگے تو شائد کبھی بھی کسی بڑے مقصد کو حاصل کر پائیں۔ اس بات کا بھی ملحوظ خاطر رکھیں کے دشمن ہماری صفوں میں موجود ہیں اور یہ انکا ہی کام ہے کہ ہمارے اندر انارکی پیدا کرنے میں دیر نہیں لگاتے اور پھر آپ ایسے لوگوں کو ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں یہ لوگ اپنا کام کر کے حالات کو خراب کر کے ماحول میں تناؤ پیدا کرکے کسی اور جگہ اپنا کام سرانجام دینے کیلئے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ بد انتظامی اور بد نظمی سے جان چھڑانی ہے تو ہمیں برداشت پر بہت زور دینا ہوگا۔
مملکت خداداد پاکستان کا وہ طبقہ جو کہ نا صرف پڑھنا لکھنا جانتا ہے بلکہ معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے، وقت آپ جیسے لوگوں سے تقاضا کرر ہا ہے کہ معاشرے کی اصلاح کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کیجئے۔ ہم سب پاکستانی جب تک ایک سمت کی جانب منہ کر کے کھڑے نہیں ہونگے تو سفر شروع کیسے ہوگا اور جب سفر شروع ہی نہیں ہوگا تو منزل پر پہنچنا ناممکن سی بات ہے۔
اسکولوں میں کالجوں میں غرض یہ کہ ہر ادارے میں برداشت کی تربیت کا عملی مظاہرہ ہونا چاہئے، دور حاضر میں یہ ہمارے معاشرے کیلئے انتہائی اہم عمل ہے جسکا تقاضہ ہمارا دین بھی کرتا ہے اور ہمارے نبی ﷺ کی تعلیمات بھی ہمیں برداشت کرنے کا درس دیتی ہیں۔ ہمارے حکمران چاہے وہ اقتدار میں ہوں یا حزب اختلاف میں برداشت کی سیاست کا مظاہرہ کریں اور عوام کو بھی اپنے ہر پیغام کیساتھ برداشت کا عملی مظاہرہ کرنے کا درس دیں۔