اس مضمون کا عنوان ہار تسلیم کرنے والوں کے نام رکھنا چاہتا تھا لیکن چند ایک کے سوا شائدہی کسی نے اپنی ہار تسلیم کی ہو اسلئے عنوان ہارنے والوں کے نام رکھنا پڑا ہے۔ ہارماننا اور ہار تسلیم کرنا معاشرتی استحکام اور علم تک رسائی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ ہار اسی کے چہرے پر سج جاتی ہے جو ہار مان لیتا ہے جبکہ ہار تسلیم کرنے والا اسی طرح سے بلکہ اور بھرپور انداز سے میدان میں برسر پیکار ہوجاتا ہے اور وہ جیتنے والے کی گزشتہ کارگردگی کو سامنے رکھتا ہے اور اپنی کی گئی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ انتخابات میں ہار کی دو اقسام ہوتی ہیں ایک ہار وہ جو کہ آپکی جماعت اکثریت ناحاصل کرسکی ہو اور دوسری وہ کہ آپ اپنی آبائی (جدی پشتی) نشست سے شکست فاش کا شکار ہو جائیں۔ پہلی شکست کے بدلے میں آپ ایوان تک تو رسائی حاصل کرلیتے ہیں اور حسبِ ضرورت اپنا کردار ادا کرتے ہیں، لیکن جب آپ جدی پشتی نشست ہار جاتے ہیں تو ہذیانی کیفیت سے دوچار ہونے کے سوا کچھ اور نہیں بچتا۔
تقریباً دنیا کے اکثر ممالک میں انتخابات ہوتے ہیں اور جیتنے والے ایوانوں کی راہ لیتے ہیں اور شکست کھانے والے نئے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر کام کرنا شروع کرتے ہیں اپنے منشور میں اپنے کردار میں اور بہتری لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی ملک نے راتوں رات ترقی نہیں کی اور نہ ہی راتوں رات تہذیب یافتہ ہوگیا۔ ہرلائحہ عمل کو عملی جامہ پہنانے کیلئے وقت درکار ہوتا ہے۔ پاکستان اپنی ۷۱ ویں جشن آزادی کی تیاری کر رہا ہے (اللہ نے چاہا تو رہتی دنیا تک یہ جشن منایا جاتا رہے گا)۔
پاکستان میں ہونے والے انتخابات کو ہمیشہ سے ہی مشکوک قراد دیا جاتا رہا ہے، حقیقت کیا ہوتی ہے یہ جیتنے والے اور ہارنے والے دونو ں ہی جانتے ہونگے۔ اگر الیکشن کمیشن کے علاوہ کوئی دوسرا ہاتھ اس عمل میں حصہ لیتا ہے تو ہار نے اور جیتنے والے جو ہمیشہ سے ہی پاکستانی سیاست کا حصہ رہے ہیں جانتے ہونگے، لیکن کیا وجہ ہے کہ کبھی کسی نے کھل کر اس ہاتھ کی طرف اشارہ نہیں کیا اور نہ ہی کبھی اقتدار میں آکر اس ہاتھ کو پکڑنے کی کوشش کی۔ ہارنے والے اپنی ہار پرسرے عام ماتم کرنے کی بجائے اپنی خامیوں اور کوتاہیوں پر نظر ڈالیں، انہیں چاہیے کہ دیکھیں ہم نے اپنی اپنی بار بار کی باریوں میں کیا کارگردگی دیکھائی کیا کام کئے۔ ایک رجعت پسند اور کھلے ذہن سے سوچنا چاہئے، تنقید برائے تنقید کی حکمت عملی سے اجتناب کرنا چاہئے، اس بات کا بھی خیال رہے کہ آپ کے ووٹرز کم ہوئے ہیں جن کی وجہ سے آپ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ ووٹر کیساتھ ساتھ سپورٹر بھی کم ہونا شروع ہوجائیں پھر آپ کو منہ چھپانے کی بھی جگہ نہیں ملنے والی۔ سارے ہارے ہوئے اور حکومت مخالف جماعتیں تھوڑا تدبر اور معاملہ فہمی کا مظاہرہ کریں اور اپنے جمہوری کردار کو احسن طریقے سے نبہانے کی کوشش کریں اور نئے لوگوں کو اپنی خدمات پیش کر کے دنیا میں پاکستان کا سر فخر سے بلند کرنے میں اپنا کردار ادا کریں، کیونکہ یہ بات تو سب جانتے ہیں جو ہار گئے ہیں وہ ہار گئے ہیں اب سوائے پانچ سالوں کے انتظار کے اور اپنے گنے چنے ووٹراور سپورٹرز کو سنبھالنا ہے۔
اسے اتفاق کہیں یا قدرت کا ایک اور کرشمہ کے پاکستان اپنی ۷۱ ویں سالگرہ پھر سے پہلی دفعہ آزادی کے طور پر منانے جا رہا ہے اب کی بدعنوان سیاستدانوں سے حاصل کی ہے۔ پاکستانی قوم اگر اپنی نجی وعدوں اور جذباتیت کو شکست دے پاتی تو کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف اپنے مخالفین کوایسی شکست فاش سے دوچار کرتی کہ ہارنے والوں کو شائد اپنے گھروں میں بھی چھپنے کی جگہ نہیں ملتی۔ یعنی گزشتہ ۷۰ سال ایک آزادی کے بعد دوسری اور حقیقی آزادی کا جشن منانے کا وقت آن پہنچا ہے۔ یقین کیساتھ لکھ رہا ہوں کہ اس بار پاکستانی اور بھی زیادہ والہانہ انداز سے اس آزادی کا جشن منائینگے کیونکہ یہ جشن دوہری آزادی کا ہے۔ پاکستان کے حصول کیلئے دی جانے والی قربانیوں کی ایک طویل داستان ہے کہ جب اسے سوچو تو دل سوگوار ہوہی جاتا ہے اور اس سوگواری میں اس وقت اور اضافہ ہوتا ہے جب موجودہ پاکستان کی حالتِ زار پر نظر ڈالی جاتی ہے۔ ہر شخص کی زبان پاکستان کیلئے تو دعاؤ ں سے لبریز ہوتی ہے لیکن پاکستان کے ان سیاستدانوں کیلئے جنہوں نے کبھی بھی پاکستان کی سالمیت اور استحکام کیلئے کچھ بھی نہیں کیا بلکہ کیا تو اپنے اور اپنی ذات سے وابستہ تعیشات کا اتنظام کیا۔ آج پاکستان کو بچانے کیلئے کئے جانے والے عملی اقدامات ہمارے ساتھ کا تقاضہ کررہے ہیں، تو کیا ہماراقومی اور اخلاقی فرض نہیں کہ ہم ساتھ دیں، یہ اقدامات ان تمام لوگوں کیلئے جو کسی بھی طرح سے بدعنوانی میں ملوث ہیں جو اس ملک کا خون جونک بن کر چوستے رہے ہیں ایک آہنی دیوار بن کر کھڑا ہونے جا رہا ہے۔ ملک کے تمام شہری تنظیمیں، تجارتی تنظیمیں اور خصوصی طور پر ہمارے جید علمائے کرام ان باطل قوتوں کے درمیان حائل ہوجائیں جو پاکستان کی بقاء کیلئے کئے جانے والے اقدامات کے درمیان آنا چاہتے ہیں۔ انہیں یہ بات کیوں سمجھ نہیں آرہی کہ قوم نے نہیں آپکے اپنے لوگوں نے آپ کو ووٹ نہیں دئیے، انہوں نے تمام نفاق ختم کردئیے ہیں اپنے تقسیم ہونے کی ہر علامت کو مٹا دیا ہے اب صرف اور صرف اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بات ہوگی۔ عزم عالی شان کی بات ہوگی۔
آج جو لوگ جشن آزادی نہ منانے کا اعلان کر رہے ہیں اور جو انکی حمایت کرر ہے ہیں کیا یہ لوگ پاکستان سے بغاوت کے مرتکب نہیں ہونے جا رہے ؟ کہیں تو ایک لفظ کہنے پر بغاوت کا مقدمہ بنا دیا جاتا ہے اور کہیں باقاعدہ پریس کانفرنس میں ایسی باتیں کی جاتی ہیں۔ ریاست کو کسی کو بھی ایسا کہنے تک کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ ہارنے والوں سے پاکستان کی ایک درخواست ہے کہ وہ جیتنے والوں کا ساتھ دیں اور پاکستان کو دوبارہ سے اسلامی جمہوریہ پاکستان بنانے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ اگر نئی حکومت کچھ غلط کرنے جاتی ہے تو اسے آگاہ کریں اور اگر اچھا کررہی ہے تواسے شاباش دیں۔ آپ تجربے کار ہیں اپنے تجربے سے دوسروں کو نہ صحیح پاکستان کو فائدہ پہنچائیں۔ بیشک ہم سب نے ایک دن اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔ آج پاکستان کو ایک ایک پاکستانی کی ضرورت ہے۔
قدرت نے ہمیں اس بات پر فخر کرنے کا موقع فراہم کیا ہے کہ پاکستان کی طبعی آزادی کیلئے ہمارے آباؤ اجداد نے قربانیاں دی تھیں تو ہم پاکستان کی روحانی و اخلاقی آزادی کے لئے کی جانے والی جدوجہد کا حصہ بنے ہیں۔ پہلا جشن آزادیِ بد عنوانی پوری پاکستانی قوم کو مبارک ہو۔ اللہ ہر اس ہاتھ کو مضبوط کرے جو پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان بنانے کی کوشش کرے۔ آمین یا رب العالمین۔