وقت اور حالات کی روش نے ہر فرد ِواحد کو عقل کل سمجھنے کی اجازت دے رکھی ہے، یہ شرط بھی نہیں رکھی گئی کہ وہ کس رتبے، کس منصب یا کن اسناد کا حامل یا کس قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔ آپ کسی سے گفتگو کرنے کھڑے ہوجائیں وہ آپ کو دیکھی اندیکھی ساری حقیقتوں سے روشناس کروانے کی ہر ممکن نا صرف کوشش کرے گا بلکہ آپ اپنے ہاتھ پر بیعت کرانے تک کیلئے قائل کرتا محسوس ہوگا۔ کیا یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ ایک ایسا بھی وقت تھا جب یہ سنایا جاتا تھا کہ بے عمل عالم کی بات کو دل تک رسائی نہیں ملتی اور ایسے عالم بہت کم ملتے تھے بلکہ نا ہونے کے برابر ہوتے تھے۔ سب سے بڑی دکھ کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی ان باتوں پر ان نصیحتوں پر عمل کروانے پر تو کمر بستہ ہے لیکن عمل کرنے کیلئے کوئی تیار نہیں ہے۔
یہ انسان کا فطری تقاضا ہے کہ وہ کچھ نیا کرنے کی چاہ اپنے دل میں رکھے اور یقینا ایسا ہر فرد کیساتھ ہوتا ہوگا لیکن چند مخصوص لوگ اس چاہ کو عملی جامہ پہنانے پر یقین رکھتے ہوئے زاد راہ کی فکر سے آزاد نکل پڑتے ہیں۔ لوگوں کی اکثریت ایسا کرنے سے قاصر رہتی ہے اور یہ کثیر تعداد کسی بھی وجہ سے ایسا نا کرپاتے وہ اپنے طور سے اپنی چاہ کو عملی جامہ محدود وسائل میں ممکن کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ کسی کے بنائے ہوئے راستے پر چلنا وہ بھی کسی دل کو نا لبہانے والے کے بنائے ہوئے کے راستے پر چلنابھلا کیسے ممکن ہوسکتاہے۔
اگر ہم مثبت سمت دیکھیں تو ہم نے نا مان کر بڑی ترقی کر لی ہے، ہم نے دنیا سے کوئی سبق نہیں سیکھا بلکہ خود ہی سے نئے نئے اسباق تیار کرلئے ہیں اور انکی تصحیح کیلئے ہمیں کسی کی ماہرانہ رائے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، بس ہم صحیح ہیں ہاں اگر کسی کو ہم سے کسی قسم کی معاونت چاہئے تو وہ ہم دینے کیلئے سب سے آگے دیکھائی دیتے ہیں۔ آج دنیا میں امن مشن پر تعینات اقوام متحدہ کی فوج میں پاکستانی فوج کا دستہ جو مرد و خواتین دونوں پر مشتمل ہے تقریباً ہر محاذ پر دیکھائی دیتا ہے، اسکی ایک وجہ تو خدمت کے جذبات سے سرشار ہونا بھی ہے اور اپنے پیشے سے والہانہ محبت بھی ہوسکتی ہے اور کچھ خاس کرنے کی چاہ سب سے مقدم ممکن ہوسکتی ہے، تو دوسری طرف بین الاقوامی وسعطوں تک رسائی بھی ممکن ہے دوسری ثقافتوں، تہذیبوں اور دوسری زبانوں کو دیکھنے اور سیکھنے کے واسیع مواقع بھی میسر آتے ہیں۔ کبھی ہماری خود سری کوہ ہمالیہ کو بھی پار کرتی دیکھائی دیتی ہے اور جب ہم بے حسی پر اتر آتے ہیں تو انسانیت کو بھی شرمند ہ ہوکر منہ چھپانے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ ہم کسی کی جیت کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس پر الزام لگا کر ہارنے والے کی نا اہلی پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔
ہم مسلمان ہیں، ہمیں محسوس یہ ہوتا ہے کہ ہم قبل از اسلام والے مکہ کے کفار ہونے کا عملی تجربہ کرنے کا فیصلہ کئے ہوئے ہیں۔ کیا معصوم بچوں بچیوں کے ساتھ ہونے والے واقعات، خواتین کیساتھ ہونے والی زیادتیاں ہمارے اذہان پر سے گرد نہیں جھاڑ رہے۔ ہم بہت تیزی سے منزلیں طے کرتے ہوئے آگے کی طرف جارہے ہیں، آسائشوں کے انبار لگائے جا رہے ہیں لیکن عملی طور پر محسوس یہ ہورہا ہے کہ ہم اتنا ہی ماضی کی طرف تیزی سے پہنچ رہے ہیں، بھلا یہ کیسی ترقی کی گھنٹی ہم نے اپنے اپنے گلوں میں باندھ لی ہے جس کے بجنے سے یہ پتہ نہیں چل پا رہا ہے کہ سفر آگے کی جانب ہورہا ہے یا کہ واپسی کی طرف۔ ان باتوں سے ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ہم بحالت مجبوری کسی بھی عمل کیلئے تیار ہوجاتے ہیں، تازہ ترین مثال کیلئے باہر نکل کر خود مشاہدہ کرلیجئے کورونا کی ویکسین لگوانے کیلئے شور مچا ہوا ہے، حکومت وقت نے ہر ممکن ذرائع سے عوام تک یہ آگاہی پہنچائی کے ویکسین لگوالیں جس کی تاحال کوئی قیمت نہیں ہے لیکن عوام اپنی مفروضوں کی بنیاد پر اس سے اجتناب کرتی رہی جس کی وجہ سے ویکسین لگوانے کی مخصوص جگہ اکثر اوقات خالی دیکھائی دیں لیکن اب جب چوتھی لہر نے سر اٹھایا تو عوام اس طرح سے امڈ کر آگئی ہے کہ مخصوص جگہوں میں حکومت کو اضافہ کرنا پڑگیا ہے، حسب عادت عوامی ردعمل سامنے آنا شروع ہوگیا ہے کہ جی ہم تو ضعیف ہیں ہم تو بیمار ہیں اور لائنوں میں لگا کر رکھا ہوا ہے اتنا اتنا انتظار کروایا جارہا ہے، ان کو یہ بتایا جائے کہ یہ ہی جگہیں چار دن پہلے تک سنسان پڑی ہوئی تھیں اب جب موبائل سم بند ہونے کی دھمکی دی گئی تنخواہیں بند کرنے کی دھمکیاں دی گئیں تو سب ایک ساتھ ہی نکل کر سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور عملے کو زدوکوب کرنے پہنچ گئے ہیں۔ وقت پر ناماننے کی کوئی نا کوئی قربانی تو دینی پڑے گی۔
ناماننے کی ایک اعلی ترین مثال سیاسی میدانوں میں دیکھائی دیتی ہے جہاں آنکھوں والے اندھوں کی طرح اپنے اپنے قائدین کی حمایت میں نعرے پر نعرے لگائے سنائی دیتے ہیں وہ اس سمجھ سے بھی عاری ہوتے ہیں کہ بھلا وہ کیا نعرہ لگا رہے ہیں سونے پر سہاگا یہ ہے کہ ساتھ کھڑے ہجوم میں سے بھی کوئی نہیں نکلتا کہ کم ازکم نعرے لگانے والے کو سمجھا دے، نہیں جی بس نعرے لگانے ہیں، کیونکہ وہ جس کیلئے نعرے لگا رہے ہیں زمین پر اس سے بہتر کوئی انسان ہی نہیں ہے۔ ہم یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ اگر جان لیا جائے تو معاملات میں بہتری آنے کے قوی امکان پیدا ہوجاتے ہیں۔
ہمارے نا ماننے کا سلسلہ بہت دراز ہے جس کے آغاز کا علم شائد ہے بھی اور نہیں بھی۔ اللہ اور اسکے محبوب رسول مقبول ﷺ پر ایمان کیلئے لازم ہے انکے احکامات کو مانا جائے اوراپنی عملی زندگی کو ان کے مطابق گزارنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم ناماننے والے لوگ ہیں لیکن ہمارے لئے یہ بھی کسی بڑے سے بڑے اعزاز سے کم نہیں ہے کہ ہم اپنے اللہ اور رسول پاک ﷺ کو دل و جان سے مانتے ہیں۔ بدقسمتی صرف اس بات کی ہے کہ ہم نا تو اللہ تعالی کی کتاب پر عمل کرتے ہیں اور نا ہی نبی پاک ﷺ کی سنتوں کو زندہ رکھنے کیلئے کوئی عملی مظاہرہ کرتے دیکھائی دے رہے ہیں۔ بقول اشفاق احمد کے باباجی مسلمان وہ ہے جو اللہ کو مانتا ہے جبکہ مومن وہ ہے اللہ کی مانتا ہے۔
کوئی بھی اجتماعی صورتِ حال کسی کی انفرادی خواہش کا مظہر ہوتی ہے۔ ہم بطور بڑے اپنے بچوں کو ماننے کی ترغیب ہی نہیں دیتے بلکہ منوانے کیلئے سختی بھی کرتے ہیں اس کے برعکس اپنے بڑوں کی مانتے نہیں ہیں تو پھر یہ رویہ تو گردش کرتا ہی رہے گا۔ یہ سلسلہ اسوقت تک چلتا رہے گا جب تک ہم سچ بولنا نہیں شروع کردیتے، جب تک ہم انسانیت کی خدمت کرنا نہیں شروع کردیتے اور ہم ان لوگوں سے جان نہیں چھڑا لیتے جو ہمارے لئے، ہمارے آنے والے وقتوں کیلئے برائی کا سامان کرنے کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔ جب تک ہم ماننے کی صلاحیت سے محروم رہینگے ہم اسی طرح بھٹکتے رہینگے اور ظالم ہمیں تقسیم در تقسیم کرتا اور ہم پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑتا رہیگا۔ فیصلہ ہم نے کرنا ہے تو پھر مان جائیے اور آنکھوں پر سے پٹیاں اتار دیجئے۔