ہمیں اس تاریخ میں نہیں جانا چاہتاکہ کراچی کی زبوں حالی کا آغاز کہاں سے ہوا ہے۔ کیونکہ جو جانتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں اور نہیں جانتے ایک تو وہ یہ سب جاننے میں اپنا وقت برباد نہیں کرنا چاہتے، دوسرا یہ کہ انہیں اس بات سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا۔ اب بات کرنے کی ابتداء وہاں سے کرتے ہیں، جہاں سے کراچی سے جمہوری طرز عمل کو پچھلے دروازے سے نکال باہر کیا گیا۔ بظاہرکراچی کا نظم ونسق مئیر کراچی چلاتے رہے، جو اس بات پر آخر تک شور مچاتے کھڑے رہے کہ ہ میں کام نہیں کرنے دیا جاتا۔
دوسری طرف سندھ حکومت نے کبھی بھی کراچی یا سندھ کو کسی کام کے قابل سمجھا ہو۔ ذرائع آمد و رفت کی زبوں حالی سے شروع ہونے والی یہ داستان تعلیمی اداروں اور نظام تعلیم کی تباہی سے ہوتی ہوئی شہر کی تباہی کی کہانی بن کر رہ گئی ہے۔ ایک عرصے سے سارے شہر میں کراچی کو بچانے کیلئے مختلف سیاسی، مذہبی اور سماجی تنظیموں نے بینر آویزاں کئے ہوئے ہیں، ہر اتوار اس سلسلے میں کسی نا کسی جماعت کی احتجاجی ریلی بھی سڑکوں پر دیکھائی دیتی ہے اور اس ریلی کا چرچا ہفتہ دس دن قبل ہی مختلف طریقوں سے کیا جاتا ہے، ہر روز ہی کسی نا کسی جماعت کی پریس کانفرنس بھی منعقد کی جاتی ہے۔
کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ جیسے وہ کراچی جسے عروس البلاد، یعنی روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا، غریب پرور شہر کہا جاتا تھا اور دنیا کے بہترین بڑے شہروں میں شمار کیا جاتاتھا، وہ کراچی کوئی اور تھا، اگر سمجھ آسکے تو یہ لکھ دیتا ہوں۔ کہ کراچی کا اب جسم باقی ہے روح کب کی پرواز کرچکی اور جب جسم میں روح نا ہو تو جسم گدھوں کیلئے رہ جاتا ہے۔ ہم نے بنے بنائے خوبصورت شہر کراچی کو اُجڑتے دیکھا ہے، ہم نے ان روشنیوں کے شہر کراچی کو اندھیروں میں ڈوبتے دیکھا ہے، ہم نے نامی گرامی تعلیمی اداروں کو برباد ہوتے دیکھا ہے۔
یوں سمجھ لیجئے کہ جس نسل نے کراچی کی باگ ڈور سنبھالنی تھی، ہم نے اس نسل کو برباد وہوتے دیکھا ہے، ہم نے آرزءوں کا قتل عام دیکھا ہے، ہم نے جذبات کو مادیت سے بدلتے دیکھا ہے، ہم ظاہری طور پر ایسے بہت سے عوامل جانتے ہیں، جن کی بدولت شہرِ کراچی کو بدحالی کی جانب باقاعدہ دھکیلا گیا ہے۔ اہل نظر کیلئے قابل غور بات یہ ہے کہ اگرشہرِ کراچی کی بربادیوں کا سامان کرنے والے ہی اسکی زبوں حالی کا گریہ کریں گے تو معاملے کی نوعیت مزید سنگین ہونے کا یقین ہے۔
یوں تو موجودہ حکومت پرعرصے دراز کے بعد بھروسہ کیا اور کراچی انہیں جتوایا، جس کی وجہ سے ایک کراچی کمیٹی بھی تشکیل پائی اور اربوں روپے کے باقاعدہ اعلانات بھی کئے گئے، لیکن کراچی کا زخم ناسور کی صورت میں بدلتا ہی چلا جارہا ہے۔ ہم کسی محبِ وطن کی نیت پر شک بھی نہیں کرسکتے کیونکہ ذرائع ابلاغ پر بڑی بڑی شخصیات کو کراچی کیلئے باقاعدہ آنسو بہاتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔
پاکستان کی ایک نامی گرامی سیاسی و مذہبی جماعت، جماعتِ اسلامی، جو باقاعدہ کراچی کیلئے اپنی حیثیت میں بھرپور آواز اٹھاتی رہی ہے۔ مختلف اوقات میں جہاں جب کوئی اجتماعی مسئلہ درپیش ہوا ہے، ہر اول دستے کی طرح احتجاج کیلئے نکل کھڑ ے ہوئے ہیں، یہاں جماعتِ اسلامی کو یہ اعزاز دینا پڑے گا کہ انہوں نے ملک میں کسی بھی سیاسی جماعت کے غلط اقدامات و فیصلوں کی بھرپور مخالفت کی ہے اور کرتے چلے آرہے ہیں۔ جیسا کہ گزشتہ تقریباً پندرہ روز سے کراچی کے حق کیلئے شدید سردی کے موسم میں دھرنا دئے بیٹھے ہیں۔
ہمارے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر کوئی جماعت کسی ایسے مسئلہ پر جس کے لئے تقریباً تمام ہی جماعتوں کو اپنا اپنا احتجاج واضح کرنا ہوتا ہے، وہ ایک ایک کرکے ایسا کرتے ہیں، گویا ہم گورا سرکار کے اس فارمولے پر مکمل صادق آتے ہیں کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو۔ اگر ساری سیاسی جماعتیں عوامی مفاد میں ایک ہوجائیں کہ جن کی بنا پر آپ کا سیاسی کاروبار روادواں ہوتا ہے۔
جماعتِ اسلامی کے دھرنے میں مختلف سیاسی و سماجی جماعتیں وقتاً فوقتا ًشرکت کر رہی ہیں اوریکجہتی کا ثبوت دے رہی ہیں، لیکن یہ باقاعدہ انکے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں کیونکہ اس دھرنے کی کامیابی کا سہرا جماعت اسلامی کے سر بندھا جائے گا اور ان کا ساتھ دینے والوں کو کچھ بھی نہیں ملے گا اور عوام بھی اس کامیابی کا ذمہ دار جماعت اسلامی کو ٹہرائیں گے اور اسکے بدلے میں انہیں ووٹ بھی د ے دیں گے، جو کہ دیگر سیاسی اکابرین کیلئے قطعی نا قابل قبول ہے۔ اس سے یہ تو واضح ہوجاتا ہے کہ کسی کی جذباتی وابستگی نہیں ہے، تقریباً سب کا مفاد مادیت پر مبنی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے 8102 کے انتخابات میں بلخصوص کراچی سے کسی حد تک کامیابی حاصل کی تھی اورتبدیلی کا دعویٰ بھی کیا تھا لیکن صوبائی خودمختاری یقیناً ان کے درمیان حائل ہوگئی ہوگی۔ اسکے باوجود پاکستان تحریک انصاف نے اپنی حکومت کے تیسرے سال میں کراچی کو ایک دیرینہ انتظار سے نجات دلائی اور گرین لائن بس سروس کا افتتاح ہوگیا ہے اور کسی حد تک کامیابی سے یہ بسیں اپنی بنائی گئی مخصوص سڑکوں پر رواں دواں ہیں۔ جب آپ کو تکلیف ہواور اس وقت آپ کو دوا میسر نا ہو تو پھر دوا کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوپاتا، ایسا ہی کچھ کراچی والوں کے ساتھ ہوتا جا رہا ہے۔
جب برساتوں میں نالوں نے تباہی مچادی لوگوں کے گھروں کو رہنے کے قابل نہیں چھوڑا ایسی حالت کا بھی عینی شاہد ہوں کہ پکے گھروں میں رہنے والے اپنے بچوں کو لے کر بارش میں پناہ کی تلاش میں گھوم رہے تھے۔ عادت ہوگئی ہے کہ سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں گاڑیوں کو سڑک پر ہونے والے گڑہوں سے تو نقصان ہوتا ہی ہے لیکن ساتھ سواری کے ساتھ کیا کچھ ہوتا ہے۔
اس کا اندازہ ہر وہ فرد جانتا ہے، جو ان سڑکوں پر صبح و شام اپنے رزق کے حصول کیلئے رواں دواں ہے، کچھ عرصے کے بعد احسان کی صورت میں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی مرمت کروا دی جاتی ہے، ہونے والی مرمت پر آنے والے خرچے سے کہیں زیادہ خرچا اس کی مشہوری کیلئے خرچ کردیا جاتاہے۔ یہ عرصہ دراز سے ہورہا ہے فرق اتنا پڑا ہے کہ پہلے مرمت پر خرچہ زیادہ ہوتا تھا اور اب خرچہ ذاتی مرمت پر زیادہ ہوتا ہے۔
کراچی کی مکمل بحالی کیلئے کچھ انتہائی اہم اقدامات اُٹھانے پڑیں گے، جس کے لئے سب سے پہلے وفاق ایک غیر منتخب شدہ نمائندوں پر مبنی کراچی کی معروف سماجی و ادبی شخصیات پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے اور اس کمیٹی کیلئے اداروں کی بھرپور معاونت کو یقینی بنایا جائے، غیر ذمہ دارانہ رویوں کے محتمل ہونے والے افراد کو فوری سزاوار ٹھرایا جائے۔ کسی بھی کام میں کسی بھی قسم کی دخل اندازی کو عوام کے سامنے رکھا جائے، کمیٹی کے اجلاس اور ملاقاتوں کو عام کیا جائے۔ وفاق اور صوبائی حکومت عملی کاموں کو بغیر کسی تردد کے سلسلہ وار ہنگامی بنیادوں پرکرنے کی ذمہ دار ہونگی۔
سب سے اول ان ناگزیر کاموں کی فہرست مرتب دی جائے، جن کی وجہ سے شہر کی بدصورتی میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہورہا ہے اور شہریوں کی زندگی اجیرن ہوکر رہ گئی ہے۔ مثال کے طور پر نکاسی آب (سیورج) کا مسلۃ انتہائی ہنگامی بنیادوں پر حل ہونا چاہیےاور اس بات کو بھی یقینی بنانا ارباب اختیار کی ذمہ داری ہونی چاہیےکہ کام پائیدار ہونا چاہیےاور ٹھیکے دار طے شدہ معینہ مدت کی ضمانت دے۔
درسگاہوں میں موجود ایسے کارندوں کی نشاندہی کیلئے جو نظام تعلیم کو تبا ہ وبرباد کرنے پر معمور کئے گئے ہیں، اندر سے ہی طالب علم تعینات کئے جائیں۔ پھرذرائع آمد و رفت کے معاملات کو لیا جائے، جس میں سب سے پہلے طے شدہ عمر سے کم کسی بھی فرد کو کسی بھی قسم کی گاڑی چلانے کی سخت پابندی ہونی چاہیے۔ اس وقت کراچی سے محبت کا تقاضا ہے کہ جماعت اسلامی کراچی کے بحالی محاذ پر جم کربیٹھ تو گئی ہے، لیکن اس محاذ کو غیر جماعتی سطح پر اُٹھائے تاکہ دیگر جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کراچی کے شہری اس حمایت کیلئے باہر نکلیں۔
وقت کا اولین تقاضا ہے کہ جماعت اسلامی کراچی کی نمائندہ جماعتوں کو باقاعدہ شمولیت کی دعوت دیں، بھول جائیں کیا ہوتا رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہم کب تک کراچی بلکہ پاکستان کو ذاتی مفادات کی سیاست کی بھینٹ چڑھاتے رہیں گے۔ آئیں مل جل کر کراچی کی روشنیوں کو بحال کریں، آئیں مل جل کر پاکستان کے جھنڈے کے نیچے بیٹھ کر کراچی کی بحالی کا محاذ سجائیں۔ تاکہ وہ تمام عوامل جو انفرادی جماعت سے قطعی خوفزدہ نہیں ہوتے اجتماعیت سے ان کے اعوان کے پائے ہل جائیں گے، انہیں گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے اور انہیں من مانے قوانین قلعدم قرار دینے پڑینگے۔ فیصلہ ہم نے ہی کرنا ورنہ ہماری تباہی کا فیصلہ تو ہو ہی چکا ہے۔