الفاظ اصطلاحی اور معنوی اعتبار سے مختلف ہوچکے ہیں، جس کی اہم ترین وجہ جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ اب لوگوں نے سمجھنے کیلئے سننا چھوڑ دیا ہے اور صرف جواب دینے کیلئے سنتے ہیں۔ دوسری طرف ہم اردو میں گھس بیٹھئے انگریزی کے لفظوں کی بہتات بھی ہے تلفظ کے اعتبار سے آسان لگنے والے الفاظ کو بتدریج اردو کے حسن پر کاری ضرب لگاتے ہوئے شامل کئے جارہے ہیں۔ بہرحال انگریزی زبان کا ایک لفظ ہے لیڈر جس کے لفظی معنی ہیں لوگوں کی رہنمائی کرنے والا۔ اس رہنمائی کیلئے میدان ہو، ادارہ ہو یا پھر سیاسی جماعت جو ملک کے نظم و نسق کیلئے بنائی گئی ہو۔
یو ں تو لیڈرشپ (رہنما) کے حوالے سے دنیا کے بڑے بڑے خصوصی تعلیمی ادارے تربیتی لاحہ عمل (ٹریننگ) ترتیب دیتے ہیں اور ادارے ایک خطیر رقم اپنے ملازمین کی اس تربیت پر خرچ کرتے ہیں۔ جب کے یہ بھی طے ہے کہ بہت سی خداداد صلاحیتوں کی طرح رہنمائی کی صلاحیت بھی قدرت کی دین ہے، اسے اجاگرتو کیا جاسکتا ہے لیکن پیدا نہیں کیا جاسکتا۔ رہنما دیانتداری، عزم، برداشت، حوصلہ، قوت فیصلہ، تخلیقی فکر و سوچ، متاثر کن، محتسب، منصف، نڈر، بیباک، وسیع النظر، دوسروں پر بھروسہ اور طاقتور بنانے والی صلاحیتوں کا مرکب ہوتا ہے۔ اب ذرا ذہن پر زور دیجئے ان سارے الفاظوں کا چشمہ کہاں سے پھوٹتا ہے ؟ ہمارے پیارے نبی ﷺ وہ ہستی ہیں جنہیں اللہ رب العزت نے ان تمام خصوصیات (اور ان سے بھی زیادہ )کے ساتھ دنیا میں بھیجا۔ لیڈر یا رہنما کالفظ دراصل خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی ذات اقدس سے اخذ کیا گیا ہے، مذکورہ بالا خصوصیات آپ ﷺ کے عمل و کردار سے نمایاں ہوئیں۔ آپ ﷺ اور صحابہ کرامؓ نے دنیا کو بہترین اصولوں پر استوار کرنے کیلئے جو قوانین مرتب دئیے وہ رہتی دنیا تک کیلئے نافذ العمل رہینگے۔ صحابہ کرامؓ کی گرانقدر صلاحیتوں کی بناء پر اسلام عرب سے نکل کر دنیا کے کونے کونے تک پہنچا۔ شائد ہی تاریخ کو اور آنے والے مستقبل کو ایسے لیڈر (رہنما) میسر آسکیں گے۔ ان صلاحتوں کی گواہی ان معلموں نے بھی دی ہے جن کا تعلق اسلام سے نہیں رہا اور بعض تو نظم و نسق کی ایسی بہترین ترویج دیکھ کر تاحال پریشان ہیں۔ دنیا نے جتنا سکندر اعظم کی فتوحات کا تذکرہ کیا ہے اس سے کہیں زیادہ حضرت عمرؓ کی منظم فتوحات ہیں۔ منظم کا لفظ اسلئے استعمال کیا ہے کہ حضرت عمرؓ کی فتوحات ابھی تک باقی ہیں۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنائی جانے والی مملکت ہے اور یقیناًبنانے والے اسلامی نظریہ کی اہمیت و افادیت سے بخوبی واقف ہونگے۔
علم حاصل کرنے والے دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جو علم کو پہن لیتے ہیں اور دوسرے وہ علم میں ڈوب جاتے ہیں۔ علم کو پہن لینے سے مراد دکھاوا ہے اورعلم میں ڈوب جانے سے مراد طول و عرض کی سمجھ آجانااور عملی طور پر کردار ادا کرنا۔ رہنما سمت کا تعین کرتاہے اور صحیح سمت کاتعین کرنے کیلئے علم کا ہونا بہت ضروری ہے۔ دائمی رہنمائی موجود ہے اب جو اس سے استفادہ کرے گا اسکی کامیابی یقینی ہے دنیا میں بھی اور دنیا کے بعد کی زندگی میں بھی۔ جن کو سمجھ آجاتی ہے پھر انکے لئے نامعلوم سے معلوم نکل کر آجاتا ہے اور قدرت اپنا آپ انکے حوالے کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔
پاکستان کو یک ستر سال پہلے دنیا کے حقیقی رہنما کو سمجھ سکا تھا جس نے پاکستان بنایا اور ایک ستر سال بعد جو پاکستان کو پاکستان بنانے کیلئے کھڑا ہوا ہے اس کو بھی قدرت کے دائمی رہنما سے حقیقی لگاؤ ہے اسکے قول و فعل اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ وہ اس ٹوٹی پھوٹی، لنگڑی لولی معیشت اور خستہ حال انتظامی ڈھانچے کو سنبھال لے گا اور دنیا بہت جلد اس بات کی گواہی دے گی کے پاکستان کو ایک صحیح رہنما مل گیا ہے۔ جو اقبال کے بتائے ہوئے اس مصرعے کو بہت اچھی طرح سے سمجھتا ہے کہ تدبیر سے بدل جاتی ہیں تقدیریں۔ پاکستان کو ستر سال بعد ایک وسیع النظر اور معاملہ فہم رہنما میسر آیا ہے، جس کیلئے وزیر اعظم کا لفظ معنوی اعتبار سے جچ نہیں رہا۔ وسیع النظر اسلئے کہ لوٹی ہوئی رقم واپس لا کر ہی ملک کو کسی حد تک معاشی بحران سے نکالا جاسکتا ہے تو دوسرا معاملہ فہم اسلئے کہ کتنی برد باری سے پاکستانی امریکن معیشت دان عاطف رحمن میاں کا معاملہ سلجھا دیا گیا۔ قدرت جب ساتھ دینے پر آتی ہے تو غلط بھی صحیح کرادیتی ہے۔
پاکستان کو قدرت نے ہر قسم کے قدرتی معدنی اور دیگر وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے لیکن بد قسمتی سے یہ وسائل مقبوضہ ہوگئے اور بدعنوانی کی دلدل میں پاکستان دھنستا ہی چلا گیا۔ آپ ملک کے سابقہ وزرائے اعظم دیکھ لیجئے جن میں میاں نواز شریف صاحب، یوسف رضا گیلانی صاحب، شوکت عزیز صاحب، راجہ پرویز اشرف صاحب، محمد خان جنیجو صاحب یا پھر نگران وزرائے اعظم ان میں سے کسی ایک کا بھی نام اٹھالیجئے اور اپنے آپ سے سوال کیجئے کہ کیا ان لوگوں میں رہنمائی کرنے والی کوئی خصوصیت تھی؟ یہ وہ لوگ تو جو مخصوص مقاصد کیلئے سیاست کر رہے تھے یا ہیں انکے مقاصد میں کہیں بھی پاکستان کی سالمیت اور قومی رہنمائی دیکھائی ہی نہیں دیتی۔ ڈیم انہیں سیاستدانوں نے بنانے تھے جو برسر اقتدار رہے اگر سیاستدان ہی افہام و تفہیم کی فضاء قائم نہیں کرسکتے تو پھر کون کرسکتا ہے جی ہاں ایک رہنما یہ کام کرسکتا ہے لوگوں کو اس حقیقت سے کہ اگرڈیم نہیں بنائے گئے تو ہم سب خصوصی طور پر عوام خشک سالی سے مر جائینگے۔ بس اقتدار کے نشے میں دھت ملک کا عوام کا پیسہ کھاتے چلے گئے۔ رہنما تو وہ ہوتا ہے جو ہر مشکل وقت میں قوم کیساتھ کھڑا ہوتاہے ناکہ بیماری کا بہانہ کرکے ملک سے باہر چلا جائے۔
آج پاکستان کو ایک نہیں بلکہ رہنماؤں کی فوج مل گئی ہے اور پاک فوج بھی رہنمائی کی ذمہ داری نبہا رہی ہے ساتھ ہی اعلی عدالتیں بھی بھرپور رہنمائی میں مشغول ہیں۔ قدرت اب رہنمائی کرے گی اور پاکستان بہت جلد ایک ایسی ریاست بن کر منظر عام پر آئے گا کہ دنیا دیکھتی رہ جائے گی بس ضرورت اس امر کی ہے کہ سب صاحب اختیار لوگ اپنے اپنے محاذوں پر چوکنے رہیں کیونکہ دشمن کبھی بھی ہمیں مستحکم ہوتا نہیں دیکھ سکتا ہے۔ اب شائد دونوں لفظ اصطلاحی اور معنوی اعتبار سے ایک ہوجائے۔