ملک کا پرچم دنیا کے کسی بھی کونے میں کسی بھی وجہ سے لہرا تا ہے تو دل بھی کسی ہرے بھرے لہلاتے کھیت کی طرح لہلانے لگتا ہے۔ بہت اچھا لگتا ہے کہ جب کسی بین الاقوامی تقریب میں اپنا قومی لباس پہن کر شریک ہوتا ہے، خوشی اس وقت دوبالا ہوجاتی ہے جب وہ اپنی قومی زبان میں دنیا سے مخاطب ہوتا ہے اور اسکا اپنی قومی زبان میں مخاطب ہونا یہ وضاحت کرتا ہے کہ وہ جس ملک کی نمائندگی کر رہا ہے وہاں کے لوگ گونگے نہیں بلکہ انکے رابطے کی ایک مخصوص زبان ہے۔ ایسی صورتحال اپنے اطراف میں سب کچھ بہت ہی پرسکون کردیتی ہے۔ لیکن بہت افسوس کیساتھ لکھ رہا ہوں کے ایسے محسوسات بہت قلیل مدت کیلئے رہتے ہیں کیونکہ معینہ مختصر مدت بعد منظر تبدیل ہوجاتا ہے۔ پھر ذہن مختلف الجھنوں کی زد میں چلا جاتاہے جیسے کوئی مریض کچھ وقت اپنے ملنے والوں سے ملے اور پھر سب ویسا ہی۔ ایسے جذبات و احساسات یا اس طرح سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بد قسمتی سے بہت مختصر لوگو ں کے پاس ہوسکتی ہے۔ اکثریت کو تو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا کہ کیا پہن کر گئے ہیں اور کس زبان میں بات کی ہے۔ دنیا میں ایسے بہت کم ممالک ہیں جن کے سربراہان بین الاقوامی تقریبات میں اپنا قومی روائتی لباس پہن کر آتے ہیں جبکہ اکثریت ایسے ممالک کی ہے جن کے سربراہان بین الاقوامی طرز کا عام سا لباس پہن کر ایسی تقریبات کو رونق بخشتے ہیں ایسے ممالک کے لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کے سربراہان کیا پہن کر انکے ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں اور کس زبان میں اپنا بیانیہ پڑھ رہے ہیں۔
ہر عام انسان عمر کے لحاظ سے زندگی کے مختلف حصوں میں خواب دیکھتا ہے اکثریت اپنے خوابوں کو حسرتیں بنا کر مسکراتے ہوئے روزگار کی تگو دو میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ وہ خاص عالی مرتبت لوگ ہوتے ہیں جو ناصرف خواب دیکھتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی خواب دیکھنے کیلئے تیار کرتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ قدرت بھی ان خاص لوگوں کا بھرپور ساتھ دیتی ہے جنہوں نے کھلی آنکھوں سے دیکھے خوابوں کی تعبیر کیلئے عملی جدوجہد کی اوراپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کیا۔ قدرت ایسے لوگوں پر فخر کرتی ہے تبھی تاریخ میں ان لوگوں کے نام لکھ دئیے جاتے ہیں اور رہتے دنیا تک لکھے رہینگے۔ کھلی آنکھوں سے دیکھے جانے والے خواب ہی حقیت کا روپ دھارتے ہیں، خواب دیکھنے کیلئے وسیع النظر ہونا بہت ضروری ہے یا پھر بصیرت کا لفظ بھی استعمال کیا جاسکتاہے۔ حضرت علامہ محمد اقبال کی بصیرت کی بدولت پاکستان کا وجود ممکن ہوا۔ علامہ کے خواب سے قبل جدوجہد تو چل رہی تھی لیکن اسکی سمت کا تعین خواب کامحتاج تھا۔ مضمون کا موضوع خوابوں اور تعبیر نہیں ہے اسلئے مضمون کی جانب واپس آتے ہیں۔
۲۰۱۸ کے انتخابات نے ملکی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوئے، پاکستان نے ایک تاریخی موڑ لیا ہے، اگر یہ موڑ نہ لیا جاتا تو پاکستان کسی اندھی کھائی کی نظر ہونے والا تھا اور اسے کھائی تک پہنچانے والے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں عیش و آرام سے اپنی اپنی زندگیاں اپنے خاندانوں کیساتھ بسر کر رہے ہوتے۔ عمران خان کی ۲۲ سالہ بدعنوانی اور ناانصافی کیخلاف جدوجہد رنگ لائی اور عوام نے تحریک انصاف کو یہ بھاری ذمہ داری سونپی کے اپنے کہے پر عمل کرے اور پاکستان کو ایسے نادہندہ اور ناسور بنتے لوگوں سے نہ صرف نجات دلائے بلکہ مستقبل میں ایسے لوگوں کا راستہ بند کرے۔ پاکستان مسائل کی آماجگاہ ہے اور یہاں مختلف قسم کے مافیا کام کر رہے ہیں جوکہ بنیادی زندگی کی ضروریات پر قابض ہوئے بیٹھے ہیں۔ ان پر ہاتھ ڈالنے والا قانون خود انکے ہاتھوں میں کھلونا بنا ہوا ہے دوسری طرف قانون کے رکھوالے قانون شکنی کی داستانیں لکھ رہے ہیں۔ آج مسائل کی فہرست اٹھائیں تو معاشرتی مسائل میں ملک میں کچرے کو ٹھکانے لگانے کا مسلۂ سب سے بڑا دیکھائی دیتا ہے، سالانہ بے تحاشہ پانی کا سیلاب کی صورت میں سمندر کی نظر کردینا اس پانی کو محفوظ کرنے کا کوئی انتظام نا ہونا ملک کو خشک سالی کی جانب دھکیلتا چلا جا رہا ہے۔ توانائی کا بحران، زمینوں پر قبضہ اور اسی طرح مسائل کی بہتات عوام کو بدظن کئے ہوئے ہے۔ ایسی گھمبیر صورتحال میں نئی حکومت کے کچھ خوش آئند عملی کارناموں سے سی حد تک قومی مفادات کی ترجیحات دیکھائی دی ہیں۔
پاکستان لسانیت کی دلدل میں لتھڑا ہوا تھا جب عمران خان نے اس سیاسی ہربے کو ۲۰۱۸ کے انتخابات میں دفن کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جس کے نتیجے میں(اعلانیہ و خوفیہ) نامور لسانیت پر سیاست کرنے والے شہرہ آفاق رہنماؤں کو اپنے آبائی حلقوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اب عمران خان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ انکی سیاست اور انکی سیاسی جماعت پاکستان کیلئے کام کرے اور بلاتفریق ہر پاکستانی کی فلاح و بہبود کیلئے کام کریں، اور ایسا کام کریں کے سیاسی مخالفین کو اپنے منہ کی کھانی پڑے۔
پاکستان اپنی قومی شناخت کی جانب پیش قدمی شروع کرچکا ہے، ملک کے وزیر اعظم نے ابتک غیرملکی سفیروں اور دیگر نمائندوں سے ہونے والی ملاقاتوں میں بغیر کسی شرم کے قومی لباس زیب تن کیا اور ملک کے وقار کی اعلی مثال قائم کی ہے۔ ابھی شروعات ہے کچھ تکلیف دہ فیصلے لینے پڑینگے اور ہم عوام کو سہنے پڑینگے تاریکی سے نکلنے کیلئے ایک بھرپور کوشش کرنی پڑے گی۔ لسانیت سے قومیت کا سفر شروع ہوچکا ہے اب ایسے لوگوں کی پاکستان میں کوئی گنجائش نہیں جو لسانی سیاست کرنا چاہتے ہیں اب سب کو پاکستان کی سالمیت و بقاء کیلئے کام کرنا ہوگا۔ اب یہ یقین کرنے کا بھی دل چاہتا ہے کہ دیگر دیرینہ کاموں کی طرح اردو کو قومی زبان کا درجہ بھی باقاعدہ طور پر مل جائے گااور قائد اعظم اور ان لاکھوں قربانیوں کا پاکستان بنے کا وقت آن پہنچا ہے تھوڑی سی برداشت اور تحمل چاہئے۔ ہمارے ساتھ جو کچھ ہوچکا ہے اسکے علاج کیلئے کچھ کڑوی دوائیں کھانی پڑینگی۔ قدرت نے ہمیشہ کھلی آنکھوں سے دیکھنے والوں کا ساتھ دیا ہے اور قدرت نے عمران خان کو یہاں تک پہنچایا ہے اب وہ اسے کامیاب بھی کرائے گی لیکن اچھا یہ ہوگا کہ ہم بھی ایک قوم ہونے کا ثبوت دیں۔ ترکی میں ہونے والی بغاوت کا جواب ترکی کی عوام نے دیا تھا جس سے وہاں کے حکمرانوں کے حوصلے اور بلند ہوئے۔ لسانیت سے قومیت کا سفر شروع ہوچکا ہے۔ ہماری حکومت ہمیں لسانیت سے نکال کر قومی دھارے میں لانا چاہتی ہے اب فیصلہ ہمیں ہی کرنا ہے کہ کیا ہم اس الودہ نظام سے اور اسکے نظام کے رکھوالوں سے نجات چاہتے ہیں یا نہیں۔