سرزمین پاکستان پر پہلے دن سے ہی دشمنوں نے اپنے ناپاک عزائم کے پنجے گاڑنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے جسکا منہ بولتا ثبوت پاکستان کا دولخت ہونا ہے بات یہاں پہنچ کر بھی بس نہیں ہوجاتی یہ سلسلہ چلتا ہی چلا جا رہا ہے اور پاکستان کے وجود کو زخموں سے چور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ دہشت گردی کی آڑ میں پاکستان نے جانی و مالی اور ہرطرح کے نقصان کا سامنا کیا ہے۔ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ ہماری ماؤں نے ایک سے بڑھ کر ایک محب وطن پیدا کیا ہے جو اپنی دانست میں ملک و قوم کا سرفخر سے بلند کرنے کیلئے کوشاں رہتا ہے اور کوئی ایسا موقع نہیں جانے دیتا کہ جہاں اسکی کارگردگی پاکستان کا سبز ہلالی پرچم سب سے بلند لہرائے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہم پاکستانی انفرادی طور پر بغیر کسی سرکاری سرپرستی کے کتنے ہی کارہائے نمایاں سرانجام دے چکے ہیں اور دیتے رہنے کیلئے پرعزم ہیں۔ حالیہ اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والوں میں ایسے وطن کا نام روشن کرنے والے بھی تھے جنہیں پہلے کوئی جانتا نہیں تھا لیکن وطن کے پرچم کی سربلندی کی خواہش نے انہیں اس مقام تک پہنچا دیا کہ آج انہیں پورا پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا جانتی ہے۔ دشمن ہمیشہ طرح طرح کی سازشوں سے کام لیتے ہوئے ہماری صفوں میں موجود رہنے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہتا ہے، وہیں سرحدوں پر بھی ہمارے جانثاروں پر اپنے گولے بارود کو آزماتا رہتا ہے اوراسے سوائے ندامت کے کچھ بھی حاصل نہیں کرپاتا لیکن وطنِ عزیز پر جان قربان کرنے والے جوان بیٹے بغیر کسی شہرت کے بغیر کسی نام کے اس سرزمین پر قربان ہوتے چلے جا رہے ہیں اور ایک کے پیچھے ایک تیار کھڑا ہوتا ہے یہاں تک کے دشمن کی بندوق کی گولیاں و بارود ختم ہوجائے گا اورجس سے دشمن پر ایسا خوف طاری ہوجائے گا کہ میدان چھوڑ کر راہ فرار تلاش کرے گالیکن پھر کہیں جگہ میسر نہیں آئے گی۔
جنرل ضیاء الحق شہید ایک غیر ملکی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم پاکستانی بہت ذہین ہیں (ساتھ یہ بھی کہا کہ میں اپنی تعریف نہیں کر رہا)۔ یوں تو انکی اس بات کا حوالہ ان کی اپنی ذاتی دانشمندیوں سے مل جائے گا لیکن یہ ہمارا عمومی تاثر ہے۔ بد قسمتی سے ہم وہ قوم ہیں جس سے ساری دنیا گھبراتی ہے اور ہم ساری دنیا سے گھبراتے ہیں۔ یوں تو پاکستان کے لئے قربانیاں دینے والوں کی ایک طویل فہرست ہے لیکن اس فہرست میں ایک نام ایسا بھی ہے کہ جس کی مرہون منت آج پاکستان ساری دنیا کے ممالک میں ساتویں نمبر پر ہے جو ایٹمی طاقت کے حامل ہیں، جن بدولت ہمیں اپنی بقاء کیلئے کسی سے بھیک نہیں مانگنی پڑتی، جن کی وجہ سے ہمارے دشمن ہم سے شدید نفرت کے باوجود ہم سے مسکراتے ہوئے ہاتھ ملاتے ہیں، یہ وہ فرد ہیں کہ جنہوں نے ملک کا نا صرف دفاع کو مضبوط ترین بنایا بلکہ بوقت ضرورت اپنی خود مختاری کو بھی پاکستان پر نچھاور کردیا، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی پہچان ایٹم بم نہیں بلکہ محسن ِ پاکستان کے طورسے ہوئی۔ آپ نے قوم پر ایسے احسان کئے ہیں جو ہم عوام تو کیا ادارے بھی اسکا بدلہ نہیں چکا سکینگے۔
محترم افتخار عارف صاحب کا یہ شعر جو شائد ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کی خدمات کے اعتراف میں ہی لکھا گیا
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
کچھ عرصہ قبل تک بہت ساری ایسی باتیں ہواکرتی تھیں جو ملکی سالمیت کی خاطر منظر ِ عام پر نہیں لائی جاتیں تھیں (اور یقینا جن کی بقاء کی خاطر کیسی کیسی قربانیاں دی گئی ہونگیں)اورجن میں سے اکثر ایسے راز ہیں کہ جوپیوند خاک ہونے والوں کیساتھ ہی دفن ہوچکے ہونگے اور ہوتے چلے جائینگے۔ دورِ حاضر میں تو جیسے کوئی رازنامی لفظ کو لغت سے نکال ہی دیا گیا ہے، ہر بات کی تو کیا ہر ہر عمل کی تشہیر ہورہی ہے اور چند لمحوں میں دنیا کیا کچھ دیکھ لیتی ہے، اس وجہ سے اہم صرف چند لمحوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے، کسی خوب کہہ رکھا ہے کہ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل، آپکے ہاتھ میں موجود موبائل فون جس نے آج اپنی نوعیت کے تمام آلات سے نجات دلادی ہے آپ کی ایک انگلی سے آپکو لمحوں میں کیا کچھ فراہم کردیتا ہے جو کبھی سوچوں سے مبرا تھیں۔ ایسی بدلتی ہوئی دنیا میں بھی ایسے سچے اور کھرے لوگوں کا ہونا اللہ رب العزت کا انسانوں پر احسان عظیم ہے۔
ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب، یکم اپریل 1936ء میں ایک تعلیم سے محبت کرنے والے گھرانے میں انڈیا کہ شہر بھوپال میں پیداہوئے۔ تخلیق ِ پاکستان کیساتھ ہجرت کی اور شہر کراچی میں آبسے، یہیں سے گریجویشن کی پھر ماسٹرز کیلئے برلن یونیورسٹی (جرمنی) اور پھر تکنیکی جامعہ ہالینڈ سے ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ ہالینڈ یونیورسٹی کے عالمی شہرت یافتہ پروفیسر ڈبلیو جی برگر نے انہیں اپنا اسسٹنٹ بنا لیا۔ سن 1972 میں جامعہ لیون بیلجیم سے انجینیرنگ (فزکس میٹلرجی) میں ڈاکٹریٹ کی ڈگڑی حاصل کی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب نے یورینکوانرجمنٹ پلانٹ ہالینڈ میں ایک ماہر کی حیثیت سے کام کیا۔
پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب 1971ء کے سانحے کے بعد 1974ء میں جب ہمارے ہمسائے نے ایٹمی دھماکے کئے تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو وطن کی محبت نے پکارا اور انہوں نے اپنے دل سے اٹھنے والی اس پکار پر لبیک کہا اور پر تعیش و پرکشش زندگی کو چھوڑ کر پاکستان پہنچ گئے یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ انکی اہلیہ نے بھی ایس فیصلے میں انکا بھرپور ساتھ دیا۔ 1976ء میں بے سروسامانی کی فکر کئے بغیر نیوکلئیر لیبارٹری تعمیر کیلئے کوشاں ہوگئے انتھک محنت اور سچی لگن کی بدولت ایک عشرے سے بھی کم عرصے میں پاکستان کا نام عالمی ایٹمی نقشے پر نمایاں کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ڈاکٹر صاحب کی محنت لگن اور وطن سے سچی محبت کو دیکھتے ہوئے اس لیبارٹری کا نام ہی قدیر خان لیبارٹریز رکھ دیا گیا جو بقول ڈاکٹر صاحب کے یہ ان کےلئے بہت بڑا اعزاز ہے۔ ڈاکٹر صاحب بولنے میں دیکھنے میں انتہائی سادہ انسان تھے انکی یہ سادگی انکی تحریروں میں بھی واضح تھی۔
ہم پاکستانیوں کیلئے ڈاکٹرصاحب کی خدمات کا کوئی بدل نہیں ہوسکتا لیکن صدر پاکستان نے ڈاکٹر صاحب کی گرانقدر خدمات کا کچھ حق ادا کرنے کی کوشش کی اور انہیں 1990ء میں تمغہ ہلال امتیاز سے نوازا گیا، سچ پوچھیں تو ڈاکٹر صاحب کو ملنے کے بعد اس تمغے کی عزت و توقیر میں اور اضافہ ہوگیا ہوگاوہ اسطرح کے جن قابل قدر شخصیات کو یہ تمغہ ملے گا وہ اپنے آپ سے یہ کہہ سکتے ہیں یہی تمغہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کو بھی مل چکا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اکتوبر 10، 2021 کوپوری قوم کو بلکہ دنیا میں جہاں جہاں پاکستانی بستے ہیں ان سب کو سوگوار چھوڑ کر اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ ڈاکٹر صاحب کی صورت میں پاکستان کو عطاء کی گئی ایک لازوال نعمت نے پاکستان کو تاقیامت تک کیلئے نا قابل تسخیر بنا دیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی زندگی کا آخری دوران کے شایہ شان نہیں گزر سکا، انہیں ویسی پذیرائی نہیں دی جاسکی جسکے وہ حقدار تھے، اسے ہم بطور پاکستانی اپنی بدقسمتی تصور کرینگے کے اللہ کی ایسی نعمت تھے ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کے جس سے ہم نے خوب فائدہ اٹھایا لیکن اسکے اس نعمت کی خوب بے قدری کی، یقینا وہ اس امر سے بھی بخوبی واقف تھے کہ یہ بھی پاکستان کی سالمیت کیلئے ضروری تھا۔ دکھی دل کیساتھ کہ آنے والا وقت انشاء اللہ ایسا نہیں ہوگا کہ ہ میں کسی کے کہنے پر اپنے ہیروز کو زیرو بناکر رکھنا پڑے۔ اللہ تعالی ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب کو جنت الفردوس میں عالی ترین مقام عطاء فرمائے اور انکے لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔