پڑوسیوں نے اور دور بیٹھے بربادیوں کا سامان مہیہ کرنے والوں کی بد ترین سازشوں اور چالوں سے بھر پور نبر دآزما ہوتے چلے جانا اس بات کی گواہی ہے کہ پاکستانی قوم اللہ کے فضل وکرم سے کبھی مایوس نہیں ہوتی، جسکا عملی ثبوت بارہا پیش کیا جاتا رہا ہے۔ ایک وہ وقت بھی تھا جب آئے دن بلکہ دن میں دو دو دفعہ یہ اطلاع دل دھلادیتی ہے تھی کہ فلاں فلاں جگہ دھماکوں میں اتنی معصوم جانیں ضائع ہوگئی ہیں، کتنے ہی جیتے جاگتے انسان معذور ہوچکے ہیں اور کتنی ہی زندہ لاشوں کو دفن ہونے کیلئے چھوڑ دیا گیا ہے۔ وہ ایک انتہائی خوفناک دور تھا بسوں کے اڈے، عبادگاہیں، بچوں کے کھیلنے کی جگہیں (پارکس)، خریدوفروخت کے بازار غرض یہ کہ کوئی جگہ بھی محفوظ نہیں سمجھی جاتی تھی یہاں یہ لکھا جائے تو قارئین اتفاق کرینگے کہ شائد کوئی اورقوم ایسے حالات میں گھری ہوتی تو وہ اجتماعی قربانی کو ترجیح دیتی۔ پاکستانیوں نے مقابلہ کیا حالات کی سنگینی کو خاطر میں نہیں رکھا، دشمن کی سازشوں کو اپنی جان پر کھیل کر منہ توڑ جواب دیا۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی لمحے میں نہیں چوکے اور بڑھ چڑھ کرحالات کی بہتری کیلئے برسر پیکار رہے اور دشمن کو ہر محاذ پر منہ کی کھانی پڑی۔ دشمنوں کیلئے سب سے بڑی پریشانی یہ رہی کہ نا تو سرحدوں پر کوئی دراندازی کرنے کی جگہ دیتا ہے اور نا ہی عوام اپنی صفوں میں کوئی خاص مقام دیتی ہے۔ یہی وجہ تھی اور انہی قربانیوں کا صلا ہے کہ آج پاکستان اپنی کھوئی ہوئی حیثیت پانے کے قریب پہنچ چکا ہے بلکہ توقعات سے کہیں آگے جا چکا ہے۔
افغانستان کے حالات پاکستان پر براہ راست اثر انداز ہوتے رہے ہیں، ہمیں جان بوجھ کر ایک ایسی جنگ میں دھکیلا گیا جس کا ہم سے کچھ لینا دینا نہیں تھا لیکن حالات ہمارے بس میں نہیں تھے جس کی وجہ سے ہمیں اس آگ میں چھلانگ لگانا پڑی۔ پاکستانی افواج کی منظم حکمت عملیوں اور پلٹنا جھپٹنا کا فلسفہ آخر کار کامیاب ہوا، جس طرح سے ہمیں افغانستان کی جنگ میں دھکیلا گیا تھا اور ہماری لاتعداد قربانیوں کو کسی خاطر میں نا لانے والے امریکہ اور مفاد پرست ٹولے کس طرح سے پاکستان سے محفوظ راستے کی بھیک مانگتے دیکھائی دئیے گئے۔ پاکستان نے ہمیشہ ضرورت مندوں کا ساتھ دیا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان کو مخلص دوستوں کی ہمیشہ تلاش ہی رہی اور سوائے چین کے ہم آج تک کوئی اچھا دوست یہاں تک کے عرب ممالک سے بھی جز وقتی دوستیاں نبھاتے رہے ہیں۔ آج دنیا اعتراف کر رہی ہے کہ پاکستان کی بہترین حکمت عملی کا نتیجہ تھا کہ امریکہ اور اسکے اتحادی افواج کو پر امن انخلاء کا راستہ مل گیا ورنہ کیا ہوتا یہ دور اندیش لوگ جان سکتے ہیں۔ پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کیلئے پاکستان کی پذیرائی کسی کانٹوں کے بچھونوں سے کم نہیں رہی ہوگی۔
بیس سال گزر جانے کے بعد بھی افغانستان اپنے اندر کوئی واضح تبدیلی نہیں لاسکا، البتہ یہ ضرور دیکھا جا رہا ہے کہ طالبان کافی حد تک منظم حکمت عملی کیساتھ پیش قدمی کر رہے ہیں، بیس سال گزارنے کے باوجود اتنی بیگانگی سے انتقال اقتدار کچھ ہضم نہیں ہوپا رہا لیکن اب ایسا ہوچکا ہے۔ افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلاء کو خطے میں مثبت تبدیلی سمجھا جا رہا ہے جو بظاہر نظر آرہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھی سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اب دنیا پر امریکہ کی عمومی بالادستی کمزور ہوتی دیکھائی دے گی جو اس سوال کو بھی پیدا کرنے کی گنجائش دیتا ہے کہ کیا کوئی نئی طاقت دنیا پر اپنی طاقت آزمانے کیلئے کھڑی ہوجائے گی۔ ابھی دنیا ان سوالوں اور جوابوں میں مگن تھی کہ پاکستان جو دنیا کی آنکھوں کا مرکز بنا ہوا ہے ایک غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوگیا۔ پاکستان اور نیوزی لینڈ کے مابین پاکستان میں تقریباًاٹھارہ سال کے بعد کرکٹ کی طے پائی اور طے شدہ دن تاریخ کے مطابق نیوزی لینڈ کے کھلاڑی بمع اپنے دیگر عملے کیساتھ پاکستان پہنچ گئے، معمول کیمطابق اپنی روزمرہ کی تربیت کرتے رہے اور سترہ ستمبر بروز جمعہ سریز کا پہلا ایک روزہ طے شدہ مقابلہ شروع ہونے والا تھا کے اچانک نیوزی لینڈ کی ٹیم نے حفاظتی خطرے کی گھنٹی بجائی اور اپنا ساز و سامان آناً فاناً لپیٹ کر ہوٹل اور پہلی دستیاب پرواز سے اسی رات نیوزی لینڈ کی راہ لے لی۔ یقینا یہ کرکٹ یا شائد کسی بھی کھیل میں ایسی مثال کا ملنا ناممکن سجھائی دیتا ہے۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم نے میدان چھوڑ کر بھاگنے کی ایک انتہائی اعلی مثال قائم کی ہے۔ صرف اتنا کہہ دینا کہ ہماری حکومت کو یہ اطلاع ملی ہے کہ ہماری زندگیوں کو خطرہ ہے کافی نہیں تھا پاکستان کے وقار کو مجروح کرنے کی انتہائی کوشش کی گئی۔
جیسا کہ سب کے علم میں ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت بنام امارتِ اسلامیہ قائم ہوچکی ہے اور جو بہت حد تک منظم بھی دیکھائی دے رہی ہے، حکمت عملی بیانات بھی سامنے آرہے ہیں اور بہت واشگاف انداز میں دنیا کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ اب افغانستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش نا کی جائے اور نا ہی ہمارے داخلی معاملات میں دخل اندازی کرنے کی کوشش کی جائے یہ بات بھی بہت واضح انداز میں عام کردی گئی ہے کہ افغانستان کی زمین کسی کے خلاف استعمال نہیں کرنے دی جائے گی۔ یہ وہ تمام باتیں ہیں جو ہمارے پڑوسی کی آنکھوں میں جوتوں سمیت گھس جانے کی مترادف ہیں۔ جس کا برملہ رد عمل انکے سماجی ابلاغ پر بخوبی دیکھا جا سکتا ہے اور جس کی عملی تکلیف ہمارے کشمیریوں اور بھارت میں رہنے والے مسلمانوں پرظلم اور بربریت کے پہاڑ توڑ کر دیکھی جاسکتی ہے۔
ہمارے سرحدی گائوں دیہاتوں میں رہنے والے وطن عزیز پر قربان ہونے کیلئے سینہ سپر جگہ چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے غرض یہ کہ ہم سے دشمنی کرنے والوں کو ہر محاظ پر شکست کا سامنا کرنا پڑتا رہاہے۔ نیوزی لینڈ کو وطن واپس بھجوانے والوں کا جو تذکرہ عمومی طور پر کیا جارہا ہے وہ پانچ ملکوں کے خفیہ اداروں کے حوالے سے ہے لیکن حقیقت میں اس سارے فساد کی جڑ سری لنکا کی ٹیم پر حملے کی صور ت میں سامنے آئی تھی اب کیونکہ اب کسی بھی قسم کا حملہ کروانا ممکن نہیں تھا اسی لئے اپنے آپ کو پس پشت رکھتے ہوئے کسی اور سر پر سہرا سجا دیا۔ بہت ممکن ہو کہ نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈکو بھی اس عظیم واردات سے دور رکھا گیا ہو اور حکومتی سطح پر یہ کھیل کھیلا گیا ہو۔ اس بات کو بھی مد نظر نہیں رکھا گیا کہ سفارتی سطح پر اسکے کیا اثرات پڑ سکتے ہیں۔ یقینا نفرت کی آگ میں جلنے والے اپنے ساتھ سب کو جلانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہماری دانست میں یہ پاکستان کی طرف سازشوں کے نئے باب کھولنے کا اندیہ دیا گیا ہے، ہمارے دشمن جنہیں افغانستان جیسی جرائم کیلئے استعمال کی جانے والی سرزمین چھن جانے کا دکھ برداشت نہیں ہورہا، انکی صفوں میں ماتم برپا ہوا ہے یہ پاکستان کو کسی بھی طرح سے نقصان پہنچانے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے اور یہ بھی بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ پاکستانی قوم کرکٹ کی کس حد تک دیوانی ہے لیکن افسوس وہ یہ نہیں جانتے کہ اب ہم جذباتیت سے باہر نکل کر حقائق پر بات کرنے والی قوم بن چکے ہیں۔ نیوزی لینڈ کو قربانی کا بکرہ بنانے والے بہت جلد دنیا کے سامنے ہونگے کیونکہ وزیر اعظم صاحب نے دنیا کی سب سے بہترین خفیہ ایجنسی کو اسکی کھوج پر لگا دیا ہے جی ہاں آئی ایس آئی سے حقائق کو سامنے لانے کا کہا گیا ہے۔ وہ تمام بین ا الاقوامی نامی گرامی افراد جوپاکستانی قوم کیساتھ وقت گزار چکے ہیں، پاکستان کی خوبصورتی سے آنکھیں خیرہ کر چکے ہیں، پاکستان مہمان نوازی کی گواہی دیتے ہیں نیوزی لینڈ کی واپسی پر ناصرف ناخوش ہیں بلکہ غم و غصے کا اظہار کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔ دشمن کو ہر بار پاکستان پر حملے کا جواب، پاکستان بعد میں دیتا ہے اللہ کے فضل و کرم سے دنیا اسکا بھرپور جواب پہلے دے دیتی ہے اور جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے۔