یوں تو پاکستان کے ہونہار دنیا جہان میں سبز ہلالی پرچم کو بلند و بالا رکھنے کی کاوشوں میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ پاکستان کی سرحدوں کے محافظ سبز ہلالی جھنڈے میں لپٹنے کیلئے اپنی جانیں وطن ِ عزیز پر بے دریغ قربان کردیتے ہیں، دشمن جہاں کہیں اپنا پسینہ گراتا ہے ہمارے جوان وہاں خون بہاتے ہیں۔ وطن کا نام روشن کرنے والا برطانیہ یا دبئی میں مقیم کوئی پاکستانی ٹیکسی ڈرائیورہوتا ہے جو کسی کا نوٹوں سے بھرا ہوا بیگ اس کی ٹیکسی میں سفر کرتے ہوئے بھول جانے والے مالک کو جاکر واپس کرآتا ہے۔ وہ عارفہ کریم بھی ہوسکتی ہے کے جس کی مختصر ترین زندگی بھی پاکستان کا نام روشن کیلئے کافی تھی اسنے مائیکروسوف کی سب سے کم عمر ممبر ہونے کا نہ صرف اعزاز حاصل کیا بلکہ عارفہ کریم کو دس سال کی عمر میں بل گیٹس نے ملاقات کیلئے مائیکروسوفٹ کے صدر دفتر امریکہ میں ملاقات کیلئے مدعو کیا۔
مختلف کھیلوں کے مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے، جن کو ملک کی طرف سے سوائے بیرون ِ ملک مقابلے میں سرکاری اجازت نامے کے اور کسی قسم کی سہولت میسر نہیں ہوتیں، اپنے عزم اور حوصلے سے پاکستان کے جھنڈے کو سب سے اونچا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور دنیا کو بتادیتے ہیں کہ وسائل ہو ں یا نہ ہوں ہم اپنے وطن کی شان بڑھانے کیلئے ہر ہر لمحے پر عزم ہیں۔
بات کھیلوں کی ہورہی ہے تو آجکل ٹی 20 کرکٹ کے عالمی مقابلے متحدہ عرب امارات اور امان میں کھیلے جارہے ہیں۔ ان عالمی مقابلوں کی میزبانی کاقرع ہمارے پڑوسیوں کے نام نکلا تھا لیکن قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ اس اعزاز سے محروم کردئیے گئے۔ یہ کورونا کی بدولت ممکن ہوسکا ہے۔ جہاں کورونا کے توسط سے قدرت نے اور بہت سارے امور تقریباً سدھارنے کی کوشش کی وہیں بھارتیوں کو بھی سیکھ دینے کی کوشش گئی لیکن افسوس کے یہ ان لوگوں میں شمار کردئیے گئے ہیں کہ جن کے دلوں پر اللہ رب العزت نے مہر ثبت کر دی ہے دوسری طرف دیکھیں تو امریکہ نے ناصرف افغانستان سے اپنا انخلاء فوری طور پر مکمل کر لیا بلکہ اپنی حکمت عملیوں کا بھی ازسرِ نو جائزہ لے لیا۔ ہم کرکٹ کے عالمی مقابلوں پر بات کر رہے ہیں تو گزشتہ روز (مورخہ 2 نومبر)ہونے والے مقابلوں کے اختتام تک پاکستان اور برطانیہ سیمی فائنل مقابلوں کیلئے اپنی راہ ہموار کر سکے ہیں۔ تھوڑا سا مقابلے کیلئے آنے والی ٹیموں کا جائزہ لیتے ہیں۔
نمیمبیا وہ ملک ہے جو اس عالمی کپ مقابلوں میں پہلی دفعہ شریک ہورہی ہے، اس سے پیشتر امان اور پوپانیوگنی کی ٹی میں جو پہلے مرحلے سے آگے نہیں آسکیں، لیکن ان ٹیموں نے مثبت تاثر دنیائے کرکٹ پر چھوڑا ہے۔ یوں تو ٹی 20 کرکٹ میں کسی بھی ٹیم کو بہترین قرار دینا ہمارے نزدیک کوئی دانائی نہیں ہے۔ اس مختصر طرز کی کرکٹ میں کوئی ایک کھلاڑی بھی مقابلے کا نقشہ بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور وہ بلے بازوں میں سے بھی ہوسکتا ہے اور وہ گیند باز بھی ہوسکتا ہے۔ موجودہ عالمی کپ کو دیکھ لیجئے جس کے مقابلے اس بات کی گواہی دینے کیلئے کافی ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک ٹی20 میں اس شش و پنج میں مبتلاء رہیں کے اس طرز کی کرکٹ کیلئے کسی خاص بندوبست کی ضرورت ہے لیکن ایسا قطعی نہیں تھا، اس طرز کی کرکٹ کو دیکھا جائے تو سب سے بہترین پاکستانی کھلاڑیوں نے سمجھا اور سب سے پہلے اس خوب ملاپ کیا۔
دوہزار سات میں پہلا ٹی 20 کا عالمی کپ ہوا جس کا فائنل پاکستان اور بھارت کے مابین کھیلا گیا اور جو ایک انتہائی دلچسپ مقابلے کیبعد بھارت نے اپنے نام کیا۔ کرکٹ نے ٹی ٹوئنٹی کا روپ دھار لیا ساری دنیا میں لیگز منعقد ہونے لگیں ہیں جہاں بین الاقوامی کھلاڑی شرکت کرتے ہیں اور اب تو یہ باقاعدہ ایک کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے کسی ملک سے کوئی بھی کسی دوسرے ملک میں ٹیم خرید کر کھلا رہے ہیں۔ وقت تیزی سے بدلتا گیا دوسری ٹیموں نے اس طرز کے کھیل کو سمجھنے میں کافی وقت لگایا جن میں آسٹریلیا تاحال اس کھیل میں محارت دیکھانے سے قاصر ہے ان کی بنسبت انگلینڈ نے اس کھیل پر بھرپورتوجہ دی اور بہترین کھلاڑی تیار کئے جس کی وجہ سے دوہزاردس کا عالمی کپ اپنے نام کیا۔
ایشیائی ٹیموں نے اپنی کارگردگی بہتر سے بہترین کی طرف گامزن رکھی ہے، سری لنکانے دوہزار چودہ میں یہ تاج اپنے سر سجایا، ویسٹ انڈیزکی ٹیم نے یہ اعزاز اب تک دو بار حاصل کیا ہے انہوں نے یہ اعزاز پہلی بار دوہزار بارہ میں اور دوسری بار دو ہزار سولہ میں یعنی دوموجودہ عالمی کپ کے دفاعی چیمپین ہیں۔ پاکستان اور ویسٹ اندیز کی ٹیموں میں یہ قدر مشترک رہی ہے کہ ان کے بارے میں پیشگی کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے جسے انگریزی میں unpredictable کہتے ہیں۔
سولہ ٹیموں سے شروع ہونے والا دوہزار اکیس کا عالمی کپ، پہلے مرحلے میں چار ٹیموں آئرلینڈ، نیدرلینڈ، امان اور پوپانیوگنی کو پیچھے چھوڑ آیا۔ چھ چھ کے دوگروپ تشکیل پائے اورگروپ کی دو اوپر والی ٹی میں سیمی فائنل مقابلوں کیلئے پیشقدمی کرینگی۔ یہاں بھارت کا تذکرہ کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ وہ بطور میزبان ان مقابلوں میں شریک ہیں۔ بھارت کی ٹیم کا بین الاقوامی کرکٹ کونسل میں بڑا اثر و رسوخ ہے جس کی وجہ سب سے بڑا رقم دینے والا ملک ہے۔ یہ اپنا اثر و رسوخ میدان سے باہر تو استعمال کرسکتے ہیں لیکن میدان کے اندر جو کرنا ہے ان کے کھلاڑیوں کو ہی کرنا ہوگا، اور کھلاڑیوں سے کچھ ہو نہیں پارہا جیسا کہ پاکستان اور نیوزی لینڈ سے ہونے والے مقابلوں میں ساری دنیا نے دیکھ لیا۔ یہاں ایک اضافی جملہ لکھتا چلوں کہ جو لوگ پاکستان اور ویسٹ انڈیز کو unpredictable کہتے ہیں وہ اب ہر ٹی 20 کھیلنے والی ٹیم کوکہہ سکتے ہیں خصوصی طور پر بھارت کو۔
آئیں تھوڑا سا غرب الہند یعنی ویسٹ انڈیز کیطرف دیکھیں تو اس وقت ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی ان سے بہترکو ئی ٹیم ہوہی نہیں سکتی ان کا ایک ایک کھلاڑی وہ ہے جو اکیلے ہی مقابلے کا پانسہ پلٹنے کا اہل ہے اور ایسا شاذ و نادر دیکھنے میں آتا ہے کہ یہ سارے کے سارے ایک ساتھ اپنے ملک کی ٹیم میں شامل ہوں لیکن دنیا دیکھ رہی ہے کہ کس طرح سے اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہاجاسکتا ہے کہ پاکستان اور برطانیہ کے علاوہ کوئی بھی ٹیم متوازن اوربھرپور کارگردگی دیکھانے سے قاصر رہی ہے، انکا ہر ہر کھلاڑی اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے کھیل پیش کر رہا ہے اور گیند اور بلے کا استعمال خوب بہترین طریقے سے سرانجام دے رہا ہے۔ بظاہر تو یہ دونوں ٹی میں ہی مقابلے کے آخری دن آمنے سامنے دیکھی جا رہی ہیں۔ اندازے کے مطابق دوسری دو ٹیموں میں جنوبی افریقہ اور افغانستان کی ٹی میں ہوسکتی ہیں۔
ہمارا تعلق پاکستان سے ہے اور ہم بات بھی کر رہے ہیں پاکستان کی شان بڑھانے والوں کی، جیسا کہ درجہ بالا سطور میں ایسے لوگوں تذکرہ کیا ہے جو ملک میں اور بیرون ملک ایسا کر رہے ہیں لیکن کرکٹ ہماری نسوں میں دوڑتا ہوا لہو ہے، پاکستان کا پہلا مقابلہ ہی اپنے رواءتی حریف سے تھا جس میں پاکستان اپنی محنت اور سچی لگن کیساتھ کڑوڑوں پاکستانیوں کی دعاءوں سے کامیاب ہوگیا۔ جیساکے آنکھوں نے دیکھا ہے، جس طرح سے دوہزار سترہ میں سرفراز احمد کی قیادت میں پاکستان نے چیمپین ٹرافی کے فائنل مقابلے میں بھارت کو کس تحمل اور اطمنا ن کیساتھ شکست فاش دی تھی اور اس سے کہیں زیادہ قابل تحسین تحمل اور برداشت کیساتھ اس عالمی کپ کے پہلے مقابلے میں یہ کارہائے نمایاں سرانجام دیا، پاکستان کیلئے کھیلنے والے کھلاڑی اب پہلے سے کہیں زیادہ اپنی قابلیت، وطن پرستی اور اپنے خالق پر بھروسہ کررہے ہیں۔
پاکستان کی شان بڑھانے وا لا ہر فرد پاکستان کا حقیقی سپاہی ہے اور جب تک اس ملک میں ایسے سپاہی موجودہیں پاکستان کا ناتو پرچم سرنگوں ہوگا اور نا ہی کسی میدان میں شکست ہمارے قریب آئے گی۔ انشاء اللہ۔ اس دعا کیساتھ کہ پاکستان بھارت کو ہر میدان میں شکست دیتا رہے گا، اب اس وقت کو بھی دعوت دے دی جائے کہ جس میں ہم اپنے کشمیری بھائیوں کیساتھ کیساتھ اور دیگر اپنے بھائیوں کابہت سارا قرض چکتا کرسکیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ جنکے سینوں پر قومی تمغے سجتے ہیں صرف وہی پاکستان کی شان بڑھانے والے ہوتے ہیں، ہم سب پاکستانی پاکستان کی شان بڑھانے والے ہیں بس اپنی اہمیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔