1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. خالد زاہد/
  4. پہلا سول پیشہ ور (پروفیشنل) وزیر اعظم!

پہلا سول پیشہ ور (پروفیشنل) وزیر اعظم!

اگر کوئی شخص مقررہ وقت پر دفتر پہنچتا ہے، چائے کے وقت چائے اور کھانے کے طے شدہ وقت پر کھانا کھاتا ہے اور دفتر سے چھٹی کے وقت دفتر سے نکلتا ہے، دفتری امورنافذ العمل قائدے اور قانون کے مطابق چلاتا ہے، کمپنی یا ادارے کے ضابطہ اخلاق کا خود بھی خیال رکھتا ہے اور دوسروں کو بھی اسکی بے حرمتی کرنے کی اجازت نہیں دیتا، کسی بھی ادارے کی ترقی میں ادارے کے سربراہ کا ادارتی ضابطہ اخلاق پر کاربند ہونا اور پیشہ ورانہ مہارت بنیادی اکائی ہیں۔ قدرت نے بھی مخصوص اوقات عبادات کیلئے طے کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ بے قاعدگیوں سے توازن بگڑ جاتا ہے اور توازن کے بگڑنے سے سب کو کچھ تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔ پاکستان کے تباہ حال اداروں اور ترقی کرنے والوں اداروں میں موازنہ کر کے دیکھ لیجئے، واضح فرق جو نظر آئے گا وہ ادارے کی انتظامیہ میں شامل افراد کا وقت کی پابندی کا خیال رکھنا اور نہیں رکھنا ہوسکتا ہے۔ جب ادارے تباہی کی جانب نکل پڑتے ہیں تب پتہ چلتا ہے کہ انہیں تباہی پر ہم نے اپنی بے قاعدگیوں سے ڈالا ہے لیکن تب تک دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ اس دیر کی زد میں چھوٹے تو معلوم نہیں کتنے لیکن ہمارے تین بڑے ادارے جن میں دو کا تعلق نقل و حمل سے ہے ایک پاکستان ریلوے اور دوسرا پاکستان بین الاقوامی ہوائی سروس(پی آئی اے) ہیں، تیسرا ایسا ادارہ ہے جو کبھی پاکستان کی حکومت کو ادھار دیا کرتاتھا (اللہ جانتا ہے) جی ہاں پاکستان اسٹیل مل کی بات ہورہی ہے، پھر سب نے دیکھا کہ وہ اسٹیل ملیں چل پڑیں جن کے والی وارث ارباب اختیار تھے اور وہ اسٹیل مل تباہ و برباد ہوگئی جو عوام کی تھی۔

ادارہ ادارہ ہوتا ہے اس کے بڑے یا چھوٹے ہونے سے اس کے بنیادی امور پر کوئی فرق نہیں پڑتا یعنی پیشہ ور محنت افرادی قوت اداروں کی ترقی کا بنیادی مہرہ ہوتی ہے۔ اس بات کو ایسے سمجھ لیں کہ گھرمیں باصلاحیت اور تعلیم یافتہ خواتین کے گھر خود گواہی دیتے ہیں۔ منظم حکمت عملی کامیاب اور بامقصد زندگی گزارنے کیلئے بھی کی جاتی ہے۔ حکمت عملی سے کیا جانے والا کام ٹھیک ٹھیک اور صحیح طریقے سے ہوتا چلا جاتا ہے۔

پاکستان کی تاریخ گواہ ہے سوائے فوجی حکمرانوں کہ کبھی کسی سول انتظامیہ نے ملکی امور پیشہ ورانہ طرز پر نہیں چلائیں ہیں(شائد اسکی وجہ ابتک نسل در نسل سیاسی گھرانوں کا حکومت یا اقتدار کے ایوانوں میں رہنا ہے)، پیشہ ور لوگ سیاست سے باز ہی رہے ہیں۔ یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوگیا ہے کہ کیاپاکستان کہ وزیر اعظم کے لئے بھی کوئی دفتری امورکا ضابطہ اخلاق ہوگا؟ اصولی طور پر تو ہوگا۔ جب دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے سربراہان دفتری اوقات کی طرح اپنے امور منصبی چلانے دفتر جاتے ہیں ہیں تو پھر پاکستان میں بھی ایسا ہی ہوگا۔ جب وزیر اعظم ہاؤس کے پانچ سو سے زائد عملہ ہے تو پھر ضابطہ اخلاق بھی ہوگا۔ اس پر عمل درآمد کے حوالے سے کوئی بہت ہی اندر کا آدمی ہی پردہ اٹھا سکتا ہے۔ پاکستان میں سیاست تو جیسے صرف تفریح اور مزے کرنے کے شوقین افراد کے ذمے رہی ہے۔ ملک میں ترقی کیلئے بنائے جانے والے منصوبوں پرنظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کے سیاسی عمل دخل اس لئے ڈالا گیا کہ اس منصوبے سے کچھ مال بٹورا جا سکے اور اپنے نام کی تختی لگوائی جا سکے۔ سیاستدانوں کی حب الوطنی ہمیشہ سوالیہ نشان بنی رہی ہے اور یہ سوالیہ نشان کوئی اور نہیں یہ سیاستدان آپس میں ایک دوسرے پر خود ہی لگاتے رہے ہیں۔ یہ لوگ اپنی ذاتی بقاء کی خاطر پاکستان کو کیا کچھ نہیں کہہ دیتے۔

عمران خان صاحب کو اقتدار سنبھالے ہوئے ابھی مشکل سے دوہفتے بھی نہیں ہوئے ہیں لیکن نام نہاد ناقدین تو جیسے تمام تیاری کر کے بیٹھے ہوئے تھے کہ یہ حکومت میں آئیں اور ہم بغیر کسی تصدیق کے بس تنقید کا پنڈورا بکس کھول کر بیٹھ جائیں۔ ویسے تو خان صاحب نے یہ بتا دیا تھا کہ جتنے بھی بدعنوان پاکستانی ہیں انکی چیخیں نکلینگی (وجہ توآپ بھی بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں)۔ کچھ صاحب نظر لوگ تو ابھی بھی سب کچھ ویسا ہی دیکھ رہے ہیں جیسا کہ پچھلے ستر سال سے چلتا آرہا ہے۔ اس پر سونے پہ سہاگا خان صاحب کی کابینہ میں کچھ ایسے منچلے ہیں جو اپنے آپ سب کو معلوم ہے کیا سمجھتے ہیں (بس قدرت نے انہیں ناخن نہیں دئیے ورنہ وہ حشر کرتے کے زمانہ دیکھتا ویسے زمانہ دیکھ تو رہا ہے )۔ بقول ساحر کہ جہان کہنہ کے مفلوج فلسفہ دانو، نظام نو کے تقاضے سوال کرتے ہیں یہ شعر دوسری بار اپنے کسی مضمون میں شامل کررہا ہوں جسکی وجہ یہ ہے کہ ایسالگتا ہے کہ بر صغیر کے رسمی اور روائتی سیاست دان بدلتی ہوئی دنیا کو بر صغیر میں داخل ہوتا دیکھ ہی سکتے۔ یہ تعلیم کو عام نہیں ہونے دینا چاہتے یہ بھوکے کو پیٹ بھرکے کھانا دینا ہی نہیں چاہتے، یہ خودٹھنڈی روشنی میں رہنا زندگی سمجھتے ہیں انہیں معلوم ہی نہیں کہ گرمی اور اندھیرا ہوتا کیا ہے۔

عمران خان کو نا تجربے کار کہنے والوں کو کوئی لے جا کر شوکت خانم ہسپتال کا دورہ کروا لائے اور اس عظیم و شان پروجیکٹ کے پہلے دن سے ابتک کی باگ دوڑ پر باقاعدہ بریفنگ دے تاکہ انہیں معلوم ہوسکے کہ خان صاحب کا تجربہ کن کاموں میں ہے۔ عمران خان اور انکی ٹیم کے اکثر کھلاڑی پیشہ ورانہ طرز پر کام کرنے کے عادی ہیں اور خان صاحب جیت پر یقین رکھتے ہیں۔ اب آپ کرکٹ کے عالمی کپ کے خواب کو تعبیر میں بدلنے والے کو لے لیں، شوکت خانم ہسپتال کے خواب کی عظیم و شان تعبیر دیکھ لیں، سب سے بڑھ کر بین الاقوامی کرکٹ میں غیر جانبدار امپائرز کو دیکھ لیں۔ جذباتی ہوکر فیصلے کرنے والے اکثر روتے ہوئے ملے ہیں، فیصلہ کرنے کیلئے جہاں دیدہ ہونا بہت ضروری ہے شائد دنیا تو ہمارے جہان کہنہ کے مفلوج فلسفہ دانو بھی دیکھ رکھی ہو لیکن اس دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات سے محروم رہے ہیں اور پاکستان کو محروم رکھا ہے۔ اب قدرت کی جانب سے پاکستان کو ایک ماہر حکمت عملی بنانے والا پیشہ ور سیاست دان عمران خان مل گیا ہے اور کوئی شک نہیں کہ قدرت ہی خان صاحب کیلئے راستے بنائے گی اور انکی حفاظت کا ذمہ بھی اٹھائے گی۔ تھوڑا صبر کیجئے اور حوصلہ رکھئے تبدیلی کا سورج طلوع ہونے والا ہے۔