تاریخ کی سرسری ورق گردانی سے معلوم ہوا کہ تیرہویں صدی عیسوی میں کسی انسان کو یہ احساس ہوا کہ اگر آنکھوں کی دیکھائی دینے کی صلاحیت کمزور ہوجائے اورآنکھوں سے دھندلا دیکھائی دینے لگے تو کس طرح اس دھندلاہٹ سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے، یہ کارنامہ باقاعدہ تیرہویں صدی عیسوی میں سرانجام پایاجب شیشوں کو باقاعدہ طور پر فریم میں لگایا گیا اور کمزور بینائی کو طاقت ور بنانے میں مدد فراہم کی گئی۔ پھرکیا تھا کہ جیسے ہر کسی کی دنیا رنگین ہوگئی، آج دنیا میں جہاں بینائی یا نظر کی عینکوں کی جگہ لینس لے رہے ہیں وہیں عینکوں نے بھی اپنی اہمیت اور ضرورت کو دھوپ سے بچاو کیلئے استعمال ہونا شروع کردیا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ یہ عینکیں جدید ڈھب (فیشن)کا ایک لازمی جز قرار پاچکے ہیں جس کا منہ بولتا ثبوت اندھیروں میں منعقد ہونے والے لباسوں کی نمائشیں ہیں۔ ان عینکوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے جو کہ لازمی آپکے تجربے سے بھی گزری ہوگی کہ جس رنگ کے شیشے کی عینک ہوگی آپ کو باہرکا نظارہ بھی ویسا ہی دیکھائی دے گا، یعنی جیسا آپ دیکھنا چاہتے ہیں ویسی عینک لگا لیجئے۔
قدرت ہر فرد کو دنیا اسے عطاء کی گئی آنکھ میں دی گئی بینائی سے دیکھاتی ہے، جبکہ انسان کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ وہ دنیا کو اپنی خواہشات کے مطابق تشکیل دے اور پھر دیکھے، کبھی آہیں بھرتا ہے تو کبھی لمبی کاش کیساتھ خاموش ہوجاتا ہے، تو کبھی اسلحہ و بارود لے کر اپنی مرضی کی دنیا بنانے نکل کھڑا ہوتا ہے، یہی انسان رنگوں سے بھر پور خوبصورت دنیا دیکھتا ہے اور اسے کینوس پر منتقل کردیتا ہے، یہی انسان لفظوں کی خوبصورت مالائیں بناتا ہے اور دنیا کی خوبصورت ہونے کے دلائل دیتا ہے غرض یہ کہ ہم کہنے کے بھرپور جواز رکھتے ہیں کہ ہر انسان نے اپنی اپنی آنکھوں پر مختلف رنگوں کی عینکیں لگائی ہوئی ہیں جو قدرت کی دی گئی بینائی سے کہیں آگے دیکھنے کی خواہش کا مظہر ہیں۔
ایک انسان دوسرے انسان کو اپنی فہم اوراپنی بصیرت سے پرکھتا ہے اوربدقسمتی سے سامنے والے کیلئے حتمی رائے بھی قائم کرلیتا ہے یوں سمجھ لیجئے کہ اپنی مرضی کی عینک اپنی آنکھوں پر لگا لیتا ہے اور اس سے دیکھائی دینے والے رنگ کو دنیا کا رنگ سمجھ لیتا ہے۔ اکثر تو ایسا جان بوجھ کر ہوتا ہے اور اکثر ایسا انسان کے زعم میں ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہاں طاقت، منصب، اختیار و دیگر وغیرہ بھی بطور عینک آنکھوں پر لگ جاتے ہیں اور انسان کو انسان کے درجے سے شائد گرا دیتے ہیں جسے انسان ہذا انسانوں سے خود کو اوپر کی کوئی شے سمجھنے لگتا ہے۔ یہاں یاد دہانی کیلئے یہ بھی لکھتے چلیں کے انسان نا تو اپنی کھال سے نکل سکتا ہے اور نا ہی اپنی کھال کو بدل سکتا ہے اسے اسی کھال کیساتھ زمین دوز (قبر) میں دفن ہونا ہے اب تو دفن ہونے کیلئے زمین بھی قسمت والوں کو میسر آتی ہے۔
ہم اگر غور کریں تو یہ سیاسی، مذہبی اور دیگر جماعتیں ان عینکوں کی طرح دیکھائی دینگی جو کسی فرد کے انفرادی مفاد کی ترجمانی کیلئے تشکیل پاتی ہیں۔ مخصوص نظریہ عوامی امنگوں کی ترجمانی کرنے نکل پڑتا ہے، یوں سمجھ لیجئے کہ نظریہ یا مفاد ایک عینک ہے جو عوام کی آنکھوں پر لگانی ہے یا پھر انہیں بیچنی ہے۔ مہذب معاشرے جہاں تعلیم کے فروغ کوبنیادی اہمیت حاصل ہو، ایسی عینکیں بیچنا آسان نہیں ہوتا یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہاں ایسی عینکیں بنانے کی نوبت ہی نہیں ہوتی۔ معاشرہ تعلیم یافتہ ہوتا ہے تو وہ اپنے مفادات سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے اور وہ حکومت کو یا کسی ادارے کو اپنے حقوق پر ڈاکا ڈالنے کی قطعی اجازت نہیں دیتے۔
یہ دیکھائی نا دینے والی عینکیں ہر ملک میں موجود ہوتی ہیں گرچہ یہ کہیں اندرونی نقصان نہیں پہنچاتیں لیکن بیرونی نقصان کے اسباب ضرور پیدا کرتی ہیں۔ دنیا کے طاقور ممالک کمزور ملکوں پر اپنی دھونس دھمکی سے قابض ہونا چاہتے ہیں، کہیں اپنی بالادستی کا رعب و دبدبا دنیا کو دیکھانے کیلئے معصوم بچوں کی زندگیوں کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ اپنی سرحدوں سے نکل جانے چاہ کتنی ہولناک بربادیوں کا سامان کرتی ہے۔ انسانیت کے دشمن انسانیت کی آڑ میں کیا کچھ نہیں کر رہے، انسانوں کی تفریق بھی ان عینکوں سے کی جاتی ہے۔ یہ ان عینکوں کا ہی نتیجہ ہے انسان میں پوشیدہ انسانیت دیکھائی نہیں دیتی بلکہ اس کی کھال کے رنگ سے محبت یا نفرت کے جذبات پیدا کرلئے جاتے ہیں۔ قدرت کی کاری گری دیکھئے کہ طرح طرح کی شکلیں بنادیں اور اسی طرح سے احساسات بھی مختلف، خوش شکل چہرے والوں کے احساسات بدشکل ہوجاتے ہیں اور بدشکل چہروں والے خوش شکل احساسات کے ترجمان بن جاتے ہیں۔ اس تضاد کی بھی وجہ قدرت نے واضح کی ہے کہ اور وہ یہ کہ آپ کسی انسان کو اپنی عینک سے حتمی نہیں دیکھ سکتے۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ کسی کے بارے میں دی جانے والی رائے الٹی ہوتی دیکھائی دیتی ہے۔
وطن عزیز پاکستان میں سڑکوں کے کناروں پر عینک بیچنے والے بیٹھے ہوتے ہیں جو موٹر سائیکل چلانے والوں کیلئے سستی عینکیں اور سرڈھانپنے کیلئے ہیلمٹ یا کیپ لئے کھڑے ہوتے ہیں۔ ایک طرف تو وہ کاروبار کررہے ہوتے ہیں وہیں وہ عوام کو ایک سستی سہولت بھی فراہم کررہے ہوتے ہیں۔ انکا مقصد عظیم ہوتا ہے گوکہ غیر معیاری شیشے یا پلاسٹک لگی عینکیں آنکھوں کو خراب کرنے کا باعث ہوسکتی ہیں لیکن کیا یہ عینکیں ان عینکوں سے بہت بہتر نہیں ہوتیں جن کی وجہ سے نسلیں خراب ہوجاتی ہیں جن کی وجہ سے نفرتیں پروان چڑھتی ہیں ہیں جن کی وجہ سے تعصب کی آبیاری ہوتی ہے۔
اب آتے ہیں کے کس طرح سے ان عینکوں سے جان چھڑائی جائے، سب سے پہلے تو یہ طے کرنا ہے کہ علم کے حصول کو یقینی بنائینگے دوسرے یہ کہ علم کی ترویج کے کیلئے اپنا کردار ہر ممکن ادا کرینگے تاکہ اچھے برے میں تمیز کرنے کی صلاحیت پیدا ہوسکے اور صحیح راستے کے تعین میں کسی دشواری کا سامنا نا کرنا پڑے۔ قدرت نے انسانوں کی رہنمائی کیلئے رہتی دنیا تک کیلئے مستند رہنما میعاری طریقہ کار نسخہ قران کریم کی صورت میں رکھا ہوا ہے، جودنیا کے ہر مسلئے کا حل پیش کرتا ہے۔ تو آئیں پاکستان کی خاطر اپنے اسلام کی خاطر یہ ساری رنگ برنگی عینکیں اتار پھینکیں اور ایمان کی عینک لگائیں تاکہ ہمیں اس راستے کا علم ہوسکے جس پر چل کر فلاح پائی جاسکتی ہے جس پر چل کر ملک و قوم کو دشوار گزار گھاٹیوں سے نکالا جاسکتا ہے، جس پر چل کر قومی خوداری و خودمختاری حاصل کی جاسکتی ہے۔