پاکستان کی تخلیق کا بنیادی نقطہ کلمہ لا الہ الا اللہ محمدرسول اللہ تھا جس پر برِ صغیر کے مسلمانوں کی اکثریت نے لبیک کہا اور تحریک پاکستان کا وجود عمل میں آگیا۔ یہ کلمہ حق جو مسلمانوں کی میراث ہے پاکستان کے حصول کا نظریہ بھی رہا۔ تحریک پاکستان کی کامیابی کے لئے بے تحاشہ بے دریغ قربانیاں دی گئیں پھر کہیں جاکر پاک سرزمین کا وجود دنیا کے تقشے پر پاکستان بن کر ابھرا۔ دشمنوں کےلئے پاکستان کا وجود پہلے دن سے ہی ناگواری کا سبب رہا ہے۔
لیکن مسلمانوں کا عزم اور قائدِاعظم محمد علی جناحؒ کی انتھک محنت دشمنوں کو خوفزدہ کئے ہوئے تھی جس کے باعث وہ تکمیل پاکستان کو روکنے سے قاصر رہے۔ جیسے پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا انہوں نے اپنے کارندے آلہ کار ہم پاکستانیوں کی صفوں میں بھیج دئیے۔ جن کا نا کوئی دین تھا، نا کوئی ایمان تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کسی مخصوص سرزمین سے تعلق نہیں رکھتے تھے یقیناََ ان کا سب کچھ پر تعیش زندگیوں کا حصول تھاجو دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں میسر ہوسکتی ہے۔
ان اسلام دشمنوں نے پاکستان سے دشمنی کو بھر پور نبھایا اور اپنے ہم نواؤں کی خوب تربیت کی اور طرح طرح سے ان کی تیاریاں کروائیں۔ دشمنان پاکستان درحقیقت دشمنان اسلام ہیں اور یہ اپنے مقصد میں بہت حد تک کامیاب رہے۔ یہ بدل بدل کر نفاق کے بیج بوتے رہے جن میں سب سے پہلے فرقہ واریت کا بیج بویا گیا اور عبادت گاہوں کو لہو لہان کروایا گیا، جہاں تک ممکن ہوسکا اس بیج کی آبیاری کی جاتی رہی قوم کو کمزور کرنے میں یہ عمل انتہائی کارگر ثابت ہوا۔
دوسرا اہم بیج تھا لسانیت کا جس نے زبان کی بنیاد پر قوم کو تقسیم کیا اور ایک منظم قوم(جس کی یکجہتی اور ایکتا کی بدولت ایک خطہ زمین کو آزاد کرایا گیا تھا) قومیتوں میں بٹ کر ملک کی کمزوری کا سبب بننے لگی۔ ایک اہم بیج طبقاتی تفریق کا بویا گیا جہاں دولت نے اپنا کردار ادا کرنا تھا جس کے لئے بدعنوانی کو فروغ دیا گیا، جس کے نتیجے میں ایک طرف حرام اور حلال کی جگہ نظریہ ضرورت نے لے لی اور جو امیر تھا وہ امیر تر، جو غریب تھا غریب تر ہوتا چلا گیا۔
دہشت گردی کی جنگ کا بیج بھی خوب بویا گیا جس کے نتیجے میں ناصرف ہمارے فوجی جوانوں نے اپنی زندگیاں قربان کی بلکہ ہمارے بچے بھی اس کی زد میں خوب آئے، ایک ایسا بھی وقت تھا جب قوم خوف و ہراس کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہوتی چلی جارہی تھی۔ یہ وہ وجوہات تھیں کے جن کی بدولت ہمارا تعلیمی نظام ایک منظم طریقے سے تبا ہ و بربادکردیا گیا اور ملک میں اہلیت (میرٹ) کا قتل عام کیا جانے لگا، خودکشیوں کے سلسلے چل نکلے۔
ابھی ہم بطور قوم اپنی بقاء کے سمندر میں واپس ابھرنے کےلئے ہاتھ پیر مار ہی رہے تھے کہ سماجی ابلاغ کے طوفان کی زد میں آگئے۔ گوکہ کورونا نامی ایک جروثومے نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا لیکن ہر ملک اپنی اپنی سطح پر اس سے نبردآزما ہوا، لیکن پاکستان نے بہت خوبی سے اللہ کی مدد سے دنیا میں سب سے بہترین طریقے سے اس کا مقابلہ کیا لیکن اس کے باوجود بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ ایک طرف پاکستانی قوم کو دووقت کی روٹی کے حصول کی جدوجہد درپیش تو دوسری طرف مذکورہ بالا گھمبیر مسائل کے گرداب کا مسلسل سامنا رہا ہے۔
یہ ایسا گرداب رہا کہ جس نے ایک طرف تو قوم کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو معذور کردیا اور دوسری طرف جو بچ گئے تھے ان کی سوچ پر مختلف طریقوں سے قبضہ کرلیا گیا۔ غرض یہ کہ دشمن اپنی تمام تر کوششوں میں بھرپور کامیاب ہوتا رہا۔ یہ پاکستان ہے جو اللہ ربّ العزت کی عطاء ہے ورنہ کوئی اور ملک ہوتا تو اتنے مصائب کے بعد دنیا کے نقشے سے کب کا زائل ہوچکا ہوتا۔ لیکن مذکورہ عوامل نے قومی تشخص پرایسی کاری ضربیں لگائیں گئیں کے قوم کی قومیتوں میں تقسیم حتمی ہوکر رہ گئی۔
اس کا فائدہ اٹھانے والوں نے جو درپردہ یا انجانے میں کسی کے آلہ کار بنے بیٹھے رہے۔ اس کا سب سے بڑا قومی نقصان یہ ہوا یا پاکستان کو یہ نقصان پہنچا کہ سب سیاسی ہوگئے، یعنی کوئی کسی کام کا نہیں رہا، سب سیاست کی نظر ہوگیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ملک کے وہ ادارے جو منافع بخش ہوا کرتے تھے دیکھتے ہی دیکھتے تباہ و برباد ہوگئے، نوبت تو یہاں تک پہنچ چکی کے انہیں بند کردیا جائے لیکن انہیں سرکاری خزانے پر بطور بوجھ اٹھا لیا گیا جو ملکی رہی سہی معیشت کا بیڑا غرق کرنے کےلئے کافی رہا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان تو ایٹمی طاقت ہے، جو دنیا میں عالمی اداروں کی جاری کردہ فہرست کےمطابق دنیا میں صرف آٹھ ممالک ہیں۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے جن میں زرخیز زمین سے لےکر قدرتی معدنیات اور سمندر جیسی نعمتیں شامل ہیں۔ جی ہاں! پاکستان ایک معجزاتی مملکت ہے۔ جس کا منہ بولتا ثبوت یہی ہے کہ اس ملک کو کھانے والوں نے ہر طرح سے کھایا ہے لیکن یہ ملک اپنی جگہ اپنے اندر بسنے والوں کو پال پوس رہا ہے۔
پاکستان طرز حکومت کبھی بھی پاکستان کے لئے سازگار نہیں رہا، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے گویا پاکستان کو اپنے آباؤ اجداد کی جاگیر سمجھ لیا اور باہمی تعاون سے ملک کی حکمرانی کا ہار ایک دوسرے کے گلے میں ڈالنا شروع کردیا۔ اس طرح سے پاکستان میں سیاست بھی ایک انتہائی منافع بخش پیشہ بن گیا اور اکثریت نے تو اسے خاندانی پیشہ بنا لیا ہے۔ یہ لوگ اتنے منظم ہوگئے کہ ملک کے سیاسی دھارے میں کسی نئے کو برداشت کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں۔
یہ ایسے حکمران بنتے چلے گئے جن کے اقتدار میں عوام کو سوائے دلاسوں کے اور کچھ نا مل سکا۔ یوں تو لاتعداد سیاسی اور مذہبی جماعتیں، الیکشن کمیشن پاکستان کی فہرستوں میں موجود ہیں، جن میں سے اکثریت ان کی ہے جو صرف اور صرف انتخابات کے دنوں میں منظرِ عام پردکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نامی سیاسی جماعت کی تقریبا ً چھبیس سال قبل داغ بیل ڈالی گئی اس جماعت کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ کوئی لسانی جماعت نہیں تھی اور نا ہی اس جماعت کا منشور کسی مخصوص طبقے کےلئے تھا۔
غرض یہ کہ اس جماعت کےلئے سوائے عوام کو انصاف فراہم کیا جانا چاہئے کا نعرہ کافی تھا جسے بظاہر کوئی اہمیت نہیں دی گئی، لیکن اس جماعت کی سب سے اہم اور خاص بات یہ تھی کہ اس کے سربراہ و قائد دنیائے کرکٹ کی جانی اور مانی شخصیت عمران خان صاحب تھے۔ اس کے ساتھ یہ خاصہ بھی آپ کے ساتھ ہے کہ پاکستان میں پہلا کینسر کا ایسا ہسپتال بنایا جہاں دنیا کی بہترین سہولیات موجود ہیں۔ خان صاب فطری طور پر جدوجہد کرنے والے اور اس جدوجہد کو پایہ تکمیل کو پہنچانے کے عادی ہیں۔
اس جماعت کی مقبولیت میں پہلے دن سے ہی اضافہ ہونا شروع ہوگیا تھا، دوسری طرف جہاں دیدہ سیاست دانوں کا خیال تھا کہ یہ ایک کرکٹر ہے اسے سیاست کی الف ب کا کیا پتہ؟ عوام تو ہمارے متوالے ہیں یہ ہمارے لئے کیا مشکل کھڑی کرے گا اور ہم کہیں نہیں جانے والے، ان کا یہ دعویٰ بھی غلط نہیں تھا کہ پاکستانی قوم کسی ریوڑ کی طرح ہے اور اس ریوڑ کو کیسے ہانکنا ہے ہم سے بہتر کوئی نہیں جانتا اور حقیقت اس سے مختلف نہیں تھی۔
پھر قدرت نے ایک بار پھر عمران خان صاحب کی نیک نیتی کا ساتھ دیا اور بین الاقوامی ادارے نے دنیا بھر میں موجود بدعنوانوں کے ناموں کا اعلان کردیا جس میں ہمارے ملک کے بھی نامی گرامی سیاستدان شامل تھے، گویہ تحریک انصاف میں جیسے ایک نہیں روح پھونک دی گئی ہو۔ بس پھر کیا تھا تحریک انصاف کی عوام میں غیر معمولی مقبولیت بڑھنا شروع ہوگئی۔ عمران خان صاحب اور ان کے ساتھیوں نے جلسے جلوسوں میں عوام میں بیداری کےلئے اور اپنے حق کےلئے کھڑے ہونے کا حوصلہ پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنا شروع کردی۔
یہ ایک کٹھن مرحلہ تھا، اس امر سے ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ پاکستانی سیاست ہمیشہ سے شخصیت پرستی کے گرد گھومتی رہی ہے اس حصار کو توڑنا آسان نہیں رہا۔ قوم میں ان کے حق پر قابض لوگوں کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا اور عوام کو یقین دلانا آسان نہیں تھا لیکن یہ بھی کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ عوام کو سمجھ آگئی کہ ان کی زبوں حالی اور ان کے سیاسی رہنمائی کی خوش حالی کے پیچھے کون سے عوامل ہیں؟
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2018 میں پاکستان تحریک انصاف نے مخلوط حکومت تشکیل دی اور ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ خان صاحب نے اب وہ اصلاحات ترتیب دینی تھیں کہ جن سے آئندہ بدعنوانی کے سوراخوں سے رساؤکو بند کیا جائے۔ ایک بہت بڑا مسلہ جو عالم اسلام کو درپیش تھا وہ تھا اسلاموفوبیہ کا کہ دنیا جہاں میں مسلمانوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جارہا تھا اور تو اور ہمارے پیارے نبی پاک ﷺ کی شان میں گستاخیوں کے سلسلے بڑھتے ہی جارہے تھے۔
عالم اسلام کا یہ گھمبیر ہوتا ہوا مسئلہ عمران خان صاحب نے تن تنہا لڑا اور خوب لڑا، ساتھ ہی عمران خان نے کشمیر اور فلسطین کے مسلئے پر افغانستان کے مسلئے پر دنیا کی آنکھیں کھولیں اور باور کرایا کہ مسلمانوں کو ان کے حقوق دئے جائیں۔ عمران خان نے دنیا پر یہ واضح کرنا چاہا کہ پاکستان ایک خود مختار سیاست ہے جو اپنے فیصلے خودکرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جس کا ثبوت امریکہ کو بہت سارے معاملات میں باز رکھنے کو کہا گیا اور بھارت سے برابری کی بنیاد پر بات کرنے کی بات کی گئی۔
ان وجوہات کو سابقہ حلیفوں نے اپنے لئے خطرے کی گھنٹی سمجھ لیا کہ یہ ہماری خطے میں کی جانے والی سال ہا سال کی کوششوں پر پانی پھیر دینے کی کوشش کررہا ہے۔ پھر کیا ہوا کہ ایک بار پھر ان کے اندرونی آلہ کار متحرک ہوئے اور بغیر ملک کے مفاد کو خاطر میں رکھے ہوئے تمام نامی گرامی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے حکومت کو گرانے کی مہم کو عملی جامہ پہنایا جس کی تقریباً اداروں کی حمایت واضح دیکھی گئی، اور اس طرح سے عمران خان صاحب وزیراعظم سے سابق وزیر اعظم ہوگئے، یہاں آگ لگانے والوں کے ارمانوں پر بھی برف پڑ گئی۔
یہ جعل سازوں کی فتح کا دن تھا لیکن یہ تو تحریک انصاف کے نئے جنم کا دن ثابت ہوا، عوامی ردِ عمل نے حکومت میں آنے والوں کےلئے ایک ایک لمحہ دوبھر کردیا، خان صاحب ایک بار پھرمقبولیت کے آسمان کو چھونے لگے پاکستانیوں سمیت ساری دنیا میں مقیم پاکستانی سڑکوں پر آچکے ہیں، عوام میں اور بہت سارے اشرافیہ نے رنگ برنگی عینکیں اتار دی ہیں، اب چپ نہیں رہا جارہا۔
سب سے پہلے پشاور میں جلسے کی تاریخ میں ایک بڑے جلسے کا اضافہ کیا پھر کراچی کا رخ کیا اور کراچی نے حسب سابق عمران خان کو دل سے تسلیم کیا۔ جب آپ یہ مضمون پڑھ رہے ہوں گے تو جلسہ لاہور میں ہوچکا ہوگا اور لاہوری پچھلے جلسوں کی تاریخ گم کرنے میں کامیاب ہوچکے ہوں گے۔ عوام نے عمران خان سے اظہار یکجہتی کابہترین مظاہر ہ کیا ہے، بظاہر ایسا محسوس کیا جا رہا ہے کہ پاکستانی عوام ریوڑ سے قوم بن چکی ہے اور اپنے قومی لیڈر کی بقاء کےلئے جو کہ قومی بقاء بن چکی ہے سڑکوں پر نکل چکی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکومت اس قومی بقاء کےلئے نکلنے والوں سے کیسے نمٹے گی؟ جو وقت انتخابات سے قبل باقی بچا ہے اسے گزارنا بہت مشکل دکھائی دے رہا ہے اس وقت تمام مسائل کا حل عام انتخابات کے علاوہ اور کچھ نہیں اورووٹ ہی یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ کون سیاسی لیڈر ہے اور کون قومی لیڈر ہے؟