1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. خالد زاہد/
  4. روس کا یوکرین پر حملہ

روس کا یوکرین پر حملہ

وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب روس کے صدر کی دعوت پر ان سے طے شدہ ملاقات کیلئے گئے اور انکے پہنچنے سے قبل ہی روس نے یوکرین پر حملہ کردیا۔ بہت ممکن ہے کہ دنیا کے بہت سارے سربراہان کا ایسا سمجھنا ہوگا کہ وزیر اعظم عمران خان اپنا دورہ منسوخ کر کے واپس آجائینگے اور سب سے بڑھ کر ہمارے ملک کے سیاسی حلقوں میں بھی ایسی ہی چے ماگوئیاں سنائی دی جارہی تھیں، لیکن سب سے آرمان اس وقت ٹھنڈے ہوگئے جب پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کا طیارہ یخ بستہ ماسکو کے ہوائی اڈے پر اتر گیا۔ دبے دبے سے لہجوں میں کچھ آوازیں سنائی دے رہی تھیں کے یہ صحیح وقت نہیں تھا لیکن کسی کی اتنی ہمت نہیں تھی کے کوئی کھل کر اس اہم ترین تاریخی دورے پر تنقید کر سکے۔

روس کے صدور دنیا کے طاقتور حکمرانوں کی فہرست میں ہمیشہ اوپر کے نمبروں میں رہے ہیں اور گاہے بگاہے انہوں نے اپنی طاقت کے نمونے بھی دنیا کو دکھائے ہیں۔ 1979 میں افغانستان پر روس نے باقاعدہ قبضہ کرنا چاہا اور اس چاہت کو عملی جامہ پہنانے کیلئے طاقت کا بدترین مظاہرہ کیا لیکن اپنی اس چاہت کو پائے تکمیل تک پہنچانے کیلئے روس کو ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود، سوائے بدترین خسارے کے اور کچھ حاصل نہیں ہوا، پھر امن کا معاہدہ طے پایا اور 1989 میں پورے دس سال بعد روس کو افغانستان سے شرم ناک شکست کو ساتھ لے کر جانا پڑا۔ روس کی اس شکست میں امریکہ کا بھی حصہ تھا۔ پھر روس کی طاقت بکھرتی چلی گئی۔

اس حملے کے بہت سارے پہلو زیر بحث ہیں لیکن ہماری نظر میں سب سے اہم ترین پہلو جو واضح نہیں دکھائی دیتا، وہ یہ کہ وقت تقاضا کر رہا ہے کہ کوئی دوسری عالمی طاقت سر اٹھائے تاکہ آمریکہ کی موجودہ طاقت کا اندازہ لگایا جاسکے، روس ایسے وقت کے انتظار میں کافی وقت سے طاق لگائے بیٹھا تھا اور ایسا محسوس کیا گیا کہ یہی وہ وقت تھا۔ کیونکہ آمریکہ میں اقتدار کی منتقلی کے بعد افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے عمل کا مکمل ہونا امریکہ کا اپنے زخموں کو چاٹنے کے مترادف تصور کیا جارہا ہے (بالکل ویسے ہی جیسے درجہ بالا سطور میں روس کے افغانستان سے انخلاء ہوا تھا)۔

حقیقت میں امریکہ کسی انتہائی زخمی حالت میں دکھائی دے رہا ہے اور بہت تحمل اور باریک بینی سے اپنی حکمت عملیوں کو وقت کے عین مطابق ترتیب دینے کی کوشش کررہا ہے۔ دوسری طرف چین دنیا کی معیشت پر تقریباً اپنا اثرورسوخ قائم کرچکا ہے، چین کسی طبعی قبضے پر یقین نا رکھتے ہوئے بہت تیزی سے ملکوں کی روحیں قبض کر رہا ہے یعنی انتظامی بکھیڑے میں پڑے بغیر دائمی قبضے کررہا ہے، جو بظاہر دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ چین داخلی اور خارجی ہر طرح سے حقیقی معنوں میں عالمی طاقت بننے کی بھرپور صلاحیت پیدا کر چکا ہے۔

یہ بھی ایک اہم پہلو ہے کہ چین نے تاحال، پاکستان کے علاوہ کسی اور اتحادی کو اہمیت نہیں دی ہے۔ اس طرح سے روس نے پاکستان کی خاموش حمایت کو چین کی بھی حمایت تسلیم کیا ہے یہی وجہ ہے کہ چین کی حکومت نے پاکستان کے وزیر اعظم کے دورے کےبعد پاکستان کے دفتر خارجہ نے بیان جاری کیا اور بالکل انہی سطور پر چین نے بھی روس پر زور دیا کے مفاہمت کا راستہ نکالا جائے، تاکہ دنیا کو کسی مزید بڑی تباہی سے بچایا جائے۔ جہاندیدہ لوگوں نے یقیناََ سیر حاصل گفتگو اس سارے ماحول پر کی ہوگی اور کر رہے ہونگے لیکن ہماری دانست میں یہ منتقلی طاقت کا وقت ہے اور جو صحیح فیصلہ کرے گا، وہ اس کے ثمرات سے فائدہ اٹھائے گا۔

پاکستان کے دورہ روس سے سب سے زیادہ تکلیف بھارت کو ہوئی ہوگی کیونکہ اسکا مکرو چہرہ اس وقت ساری دنیا کے سامنے صاف صاف واضح ہوچکا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ بھارت بہت جلد دنیا کا سب سے زیادہ غیر محفوظ ملک بننے جا رہا ہے، خصوصی طور پر غیر ہندوؤں کیلئے۔ یہاں مظالم صرف مسلمانوں پر نہیں بلکہ ہر غیر ہندو پر ڈھائے جارہے ہیں۔ روس کےساتھ پاکستان کے ایسے تعلقات کو لےکر بھارت کو شدید دھچکا لگا ہوگا، دوسری طرف امریکہ کو بھی اس بات کا صدمہ پہنچا ہوگا۔ ایک رائے یہ بھی عام سنائی دے رہی ہے کہ روس کا یوکرین پر ہونے والا حملہ تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔

اگر امریکہ اور برطانیہ اس جنگ میں کسی بھی طرح سے مداخلت کرینگے تو یہ جلتی پر تیل کا کام ثابت ہوگا۔ غالب گمان یہی ہے کہ ایسا کہیں سے بھی ممکن نہیں ہے تاوقتیکہ پاکستان یا چین، امریکہ اور برطانیہ کی بھرپور پشت پناہی نا کریں۔ روس اپنے دیرینہ خواب کی تکمیل کے قریب تر پہنچ چکا ہے وہ ایک بار پھر دنیا میں سپر پاور کہلائے جانے کا انتظار کر رہا ہے، صدر پیوٹن اپنے دودہائیوں سے زیادہ عرصے کے اقتدار میں اس تبدیلی کیلئے کیا کچھ کر چکے ہیں؟ یہ دنیا بہت اچھی طرح سے جانتی ہے۔

زندگی سب سے قیمتی شے ہے اور ہم پاکستانیوں نے ناصرف ملک بلکہ دنیا کے امن کیلئے بے تحاشہ قربانیاں دی ہیں، پاکستان کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ کسی بھی انسان کا خون ناحق بہے۔ یہی عمران خان صاحب کا بھی فلسفہ ہے کہ ہر مسلہ کا حل بات چیت سے حل کیا جاسکتا ہے تو پھر یہ گولا بارود کا استعمال کیوں؟ پاکستان کو اس ساری صورتحال کا یہ فائدہ ہوا ہے کہ سفارتکاری کو مزید فروغ ملا ہے اور وزیر اعظم عمران خان صاحب کی بصیرت ہی کہیں گے کہ حالات کی نزاکت کا کس طرح سے ملک کو فائدہ پہنچانا ہے؟ یہ خبریں بھی سنائی دے رہی ہیں کہ روس کے بعد اب جرمنی سے بھی دورے کا دعوت نامہ اعلانیہ طور پر آگیا ہے۔

وہ وقت دور نہیں ہے جب دنیا اپنے فیصلے کروانے کیلئے پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہوگی۔