ہم سب کو تجدید کرنی پڑے گی کے ہم اپنی ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کو خراج عقیدت پیش کریں، صبح و شام کریں۔ اس سے بڑھ اللہ کا شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں دین اسلام کے جھنڈے تلے پیدا کیا کہ جس نے جہالت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی دنیا کو علم و عمل کے سورج سے منور کیا۔ جہاں عورت جو ماں کے مرتبے پر فائز ہے کا مقام زمین کی گہرائی سے نکال کر، غلاظت کے ڈھیر سے اٹھا کر اللہ نے اپنے اور اپنے پیارے محبوب ﷺ کے بعد رکھ دیا۔ عورت کی عظمت کو اور اجاگر کرنے کیلئے یہاں تک بتا دیا کہ جنت ماں کے قدموں میں ہے۔ یہ دینِ اسلام ہی تو ہے کے جس کے ماننے والوں پر عورت کی عزت و احترام و تکریم کیساتھ ساتھ معاشرے میں معیشت میں اور سب سے بڑھ کر ترکے میں حصہ رکھا گیا ہے۔ اسلام ایک ایسے ضابطہ اخلاق کا نام ہے جو جہاں آسمان سے زمین تک اور چاروں سمتوں کے درمیان کی آگاہی فراہم کی گئی ہے لیکن ہر معاملے پر حد کا تعین کیا گیا ہے جو ان حدوں کے اندر رہتے ہوئے زندگی بسر کرتا ہے تو اسکا ٹھیکانا جنت ہوتی ہے اور جو ان حدوں سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا اپنی پھنے خانی دیکھانے کیلئے نکل بھی جاتا ہے تو جہنم کی آگ اسکی منتظر ہوتی ہے۔
دورِ جدید میں اسلام کی تعلیمات سے مستفید ہونے والوں کی ایک طویل فہرست ہے اور اس فہرست میں صرف ملک خداد پاکستان ہی نہیں ہے بلکہ دنیا کے ہر ملک کے دوسرے مذاہب کے باشندے اسلام کی روشنی سے اپنے دلو ں کو منور کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔ یونے ریڈلے نامی ایک برطانوی خاتون صحافی جنہیں طالبان نے اپنے پہلے دور میں جاسوسی کے الزام میں گرفتا ر کیا تھا اور تقریباً گیارہ دن زیر حراست رہیں اسکے بعد پاکستان میں افغانستان کے سفیر سے کامیاب مذکرات کے بعد آزاد ہوئیں۔ آزادی کے تقریباً دو سال بعد انہوں نے اسلام قبول کر لیا جس کے بعد انکا نام مریم رڈلے ہے۔ مریم نے طالبان کی قید کے حوالے سے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام In the hands of the talibanہے۔ اس کتاب کو مریم کی سوانح عمری بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ یہاں سے مریم نے دوبارہ جنم لیا۔ ایک بہت ہی مختصر سی حوالہ لکھنا چاہونگا کہ جب مریم کو گرفتار کرکے لایا گیا تو کسی نے انکی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا (جس کی وجہ مریم نے اپنی سمجھ سے یہ لکھی کہ میرا خیال تھا کہ یہ مجھے پھانسی پر چڑھانے کا تہیہ کر چکے ہیں اسلئے مجھ سے نظریں نہیں ملا رہے لیکن یہ ان پر اسلام سے آگاہی اور قران پاک کے مطالعے کیبعد واضح ہوا کہ یہ تو اپنے رب کی تعلیمات کے عین مطابق برتاو تھا۔ اس طرح کے اور واقعات پیش آئے اور اپنی رہائی کے وقت مریم نے طالبان سے وعدہ کیا کہ وہ قران کا مطالعہ ضرور کرینگی اور انہوں نے کیا جس کے بعد وہ ایک باعمل مسلمان خاتون بن کر مغرب میں مسلمانوں کے حقوق کی آواز بن کر گونج رہی ہیں۔
سن 2019 میں ایک کنیڈین لڑکی روزی گیبریئیل نے پورے پاکستان کی اپنی موٹر سائیکل پر سیر کی اور تقریباً پورا ایک سال تک پاکستان کو ناصرف گھوما پھرا بلکہ لوگوں کیساتھ وقت بھی گزارا جو اس بات کی بھرپور عکاسی کرتا ہے کہ پاکستانی کس قدر مہمان نواز ہیں، اور کتنے اعلی اقدار کے پاسدار ہیں۔ روزی گیبرئیل نے پاکستانیوں کی محبتوں اور خلوص اور یقینا دین اسلام کی بھرپور عکاسی کی بدولت روزی گیبرئیل کو اسلام کی راغب کیا ہوگا کیونکہ اس لڑکی نے بھی اسلام قبول کرلیا ہے۔
یہ کوئی انیس و ڈیڑ کی باتیں نہیں، اکیسویں صدی میں اور ترقی یافتہ ممالک کی خواتین جو موجودہ دنیا کی تہذیب یافتہ تہذیبوں میں رہتی ہیں افغانستان اور پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک سے کیسے متاثر ہوسکتی ہیں، یہ ایک سوالیہ نشان ہے ایسی خواتین کیلئے جو اسی معاشرے کا حصہ ہیں جس معاشرے کو مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والی خواتین بہترین قرار دے رہی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اسلام کی بنیادیں کمزور نہیں ہیں یہ ہم لوگ ہیں جو ذاتی خواہشوں کی تکمیل کیلئے کیا کچھ پامال کرتے جا رہے ہیں۔ 14 اگست کو زندہ دلانِ لاہور نے یک نا شد دو شد ایسے واقعات رونما ہوتے ہوئے دیکھے جسکے لئے دعوے سے لکھ سکتا ہوں کہ پاکستان کی 74 سالہ تاریخ میں نہیں ہوئے ہونگے۔ جس دن پاکستانی اپنا سر فخر سے بلند کر کے چلتے ہیں اپنی چھاتی پھلا کر چلتے ہیں، ان واقعات نے لاہور کے باسیوں بلکہ پورے پاکستانیوں کے سروں کو شرم سے جھکنے پر مجبور کردیا۔
واقعات نے ہمارے معاشرے کی تیزی سے بدلتی ہوئی روش کا ایک نیا باب رقم کیا اور معاشرے کے ان ستونوں کو معاشرتی اقدار کے پاسدار ہوتے ہیں ہلا کر رکھ دیاہے۔ ایک طرف پاکستانی قوم اور ارباب اختیار بچوں اور خواتین پر ہونے والے جنسی تشدد کا معمہ حل نہیں کر پائے کہ یہ نئے خوفناک سانحات رونما ہوگئے۔ ہم لوگوں کی نظر دنیا کے کونے کونے پر ہے اور نظر انداز کچھ نہیں ہوتابس طبقاتی تفریق ہمیں معاملے کی سنگینی کا تعین کرنے میں آسانی پیدا کردیتی ہے، جوکہ ایک شرمناک عمل ہے۔ معلوم نہیں ہمارے پسماندہ علاقوں میں چاہے وہ کسی بھی صوبے میں ہوں کتنی عصمتیں پامال ہوتی ہیں، ایک آہٹ بھی قانون کے دروازے پر نہیں دی جاتی، کتنی زندگیاں اپنے وجود سے خالی دفن ہونے کے انتظار میں گزرتی ہیں لیکن اب تو جیسے پورا ملک ہی پسماندہ ہوکر رہ گیا ہے، شہروں میں یکساں واقعات رونما ہورہے ہیں گویا درندے اب بیابانوں اور جنگلوں سے نکل کر شہروں میں آبسے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ وقت اور حالات نے ہمارے مزاج کو بہت تلخ کردیا ہے، ہمارے اندر درد کو محسوس کرنے کی صلاحیت کیمرہ تو پیدا کرسکتا ہے لیکن کسی کی چیخ اب اس کام کیلئے بیکار ہوکر رہ گئی ہے۔ ہم لوگ ظالم ہوگئے ہیں۔ ان واقعات کو کسی بھی طرح سے نظر انداز کرنا یا زیر بحث نا لا نا ایسے عوامل کو جلا بخشنے کے مترادف ہوگا۔ واقعات ہوجاتے ہیں اور ایسے واقعات جو ناصرف آپ کے معاشرے بلکہ ایک مسلم معاشرے میں رونما ہوں دنیا میں جگ ہنسائی سے کہیں بڑھ کر ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
خاندانی نظام کو فعل کریں تاکہ معاشرے میں صحیح اور غلط گھر سے ہی پتہ چل جائے۔ ایسے تمام کرداروں کو جو ہمارے معاشرے کا چہرہ مسخ کرنے کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں چن چن کر ان کے عزائم کیساتھ منظر عام پر لائیں اور قانون کی مدد کریں اور ریاست کی اور ایک محب وطن ہونے کا ثبوت دیں۔ اساتذہ کا کردار چاہے وہ اسکولوں میں ہوں یا پھر مدرسوں میں ہو کردار سازی کیلئے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ حکومت ِ وقت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ واقعات کی حقیقت کو عوام کے سامنے پیش کریں اور ان حقائق پر سے بھی پردہ اٹھائیں جو ایسے واقعات کا پس منظر ہوتے ہیں۔ خدارا ایسے بھیانک کرداروں کی کردار کشی ہم پر لازم ہے کیونکہ انکا ایسا کوئی بھی عمل جو ناصرف اسلام، پاکستان، پاکستان کے حکمران اور بالخصوص عوام الناس کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ لکھنے والے عوام الناس کے ذہنی دباو کو کم کرنے کی کوشش کریں اور پیدا شدہ معاشرتی مسائل کے حل کی طرف رغبت دلانے کی کوشش کریں۔ مساجد اپنا کردار ادا کریں اصلاحی بیان دیں اور نکاح کو عام کرنے پر خصوصی زور دیں۔ حکومت ِ وقت سے گزارش ہے کہ وہ ایسے قوانین زیر بحث لائیں جو معاشرے کی بہتری کیلئے کلیدی حیثیت کے حامل ہوں اور قوانین کو حقیقی معنوں میں نافذ العمل بنانے کیلئے قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا کردار نبھائیں۔ آج معیشت کی بہتری کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے جا رہے ہیں لیکن معاشرے کی بہتری کیلئے اور تعلیم کی فراوانی کیلئے کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی ہے۔