بہت ساری باتیں سن کرہم پاکستانیوں کی اکثریت ہنسنے لگتی ہے یا پھر زیر لب مسکرادیتی ہے جیسا کہ ایک لفظ ہے تبدیلی جوکہ مضحکہ خیز معنی میں استعمال ہوتا رہا ہے۔ اس لفظ تبدیلی نے درپردہ بہت سارے پاکستان میں رہنے والے پاکستانیوں اور بہت سارے بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کی نیندیں اڑا رکھی ہیں۔ ایک اندازے کیمطابق وہ افراد جو کسی نا کسی طرح سے بدعنوانی میں ملوث رہے ہیں وہ لفظ تبدیلی سے کچھ خوفزدہ پائے جاتے ہیں اور اپنے طور سے اس کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کا ساتھ دیتے پائے جاتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا وقت نے بدلنا ہوتاہے، وقت کیساتھ ساتھ حالات نے بدلنا ہوتا ہے اور اس بدلاؤ نے ماحول کو بدلنا ہوتا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ تبدیلی صرف اچھے کیلئے ہی آتی ہے کہیں یہ تبدیلی اچھائی کو برائی سے بدلنے کیلئے آتی ہے۔ شام، لیبیا، مصر، وغیرہ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ الغرض اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ انسان ایک جیسے ماحول میں مسلسل نہیں رہ سکتا ہے اور زندگی کا تو تقاضا ہی بدلتے رہناہے، اگر ایسا نہیں تو پھر قدرت نے انسان کو ایک ننھے سے بچے کی طرح کیوں پیدا کیا اور کیوں وقت کے ساتھ ساتھ اسے بڑھاتا چلا گیا۔ اسلام کا ظہور معاشرتی انقلاب کا ایسا ذریعہ بنا کہ دنیا میں تبدیلیوں کا دور دورہ چلتا چلا گیا۔ دنیا نے جہالت کے اندھیروں سے نکلنے کیلئے علم کا سہارا لیا اور اس علم کی بنیاد پر انسان نے چاند پر قدم رکھ دئیے۔ تبدیلی کو ہمیشہ مزاحمت کا سامنا رہا ہے ایسا شائد ہی کبھی ہوا ہو کہ بغیر کسی مزاحمت کے بدلاؤ آگیا ہو۔ روایت پسند لوگوں کیلئے اپنے گھر میں رکھی ہوئی چیزوں کی جگہ کو بدلنا بھی کس بہت بڑے کارنامے سے کم نہیں ہوتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ لوگ بہت خاص ہوتے ہیں جوتبدیلی کیلئے اپنا کردار ادا کرتے ہیں بلکہ بھر پور مزاحمت ہونے کے باوجود واپس نہیں پلٹتے۔
عمران خان کی زندگی کے اتار چڑھاؤ سے تقریباً ہر ذی شعور انسان واقف ہے کرکٹ سے ریٹائیرمنٹ لی لیکن ایک مقصد کی بنیاد پر اس فیصلے کو واپس لیا اور کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت کر اپنے مقصدکو اپنے حدف کو حاصل کیا، اسی دن اگلے مقصد کا اعلان کیا اور پھر پاکستانیوں نے ہی نہیں ساری دینا نے اس عظیم مقصد کے حصول میں عمران خان کا بھرپور ساتھ دیا اور وہ مقصد عملی شکل لئے ایک ہسپتال کی صورت میں وجود میں آیا۔ ان کٹھن، مشکل اور صبر آزمامقاصد کے حصول کے بعد اللہ پر ایمان اور یقین کاحتمی ہوجانا دائمی سی بات ہے۔ عمران خان پاکستان کی پہچان بن چکے تھے۔ یہ وہ یقین تھا کہ جس نے ایک نئے عظیم اور تقریباً ناممکن مقصد کا بیڑا اٹھانے کیلئے عمران خان کو اکسایا، وہ پاکستان میں نظام کی تبدیلی، پاکستان کو فرسودہ فکر اور سوچ سے آزاد کرانا تھا۔ ۲۲ سالوں پر محیط ایک کٹھن اور تھکا دینے والا طویل سفر کی تگ و دو اور انتھک محنت کا نتیجہ ۲۵ جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں نکلا جب عمران خان نے ایک اور ناممکن کو ممکن کر دیکھایا۔ یوں ابتک عمران خان نے جس تحریک کی بھی داغ بیل ڈالی جس مقصد کے حصول کیلئے کمر کسی اسے حاصل کر کے دیکھایا، پاکستانی ہمیشہ عمران خان کیساتھ رہے اور یقیناًمثبت جدوجہد کیلئے اللہ کی مدد بھی شامل ہوجاتی ہے۔
یہ ایک ایسا نظام ہے جو صرف غریب پر چلتا بلکہ غریب کو مسلتا ہے، یہاں قانون کے رکھوالے بھی ایسے ہیں اور قانون پر عمل درآمد کرنے والے بھی ایسے ہیں، یہاں قانون مرتب کرنے والے بھی ایسے ہی ہیں۔ حکمران یا حکمرانوں سے وابسطہ طبقہ پچھلے ستر سالوں سے پاکستان کو کھائے جا رہے ہیں اور بس کرنے کا نام ہی نہیں لے رہے، پاکستان کا خون نچوڑ کا ملک سے باہر لے جاتے ہیں اور وقت آنے پر ملک سے باہر خود بھی نکل جاتے ہیں۔ ایسا نہیں قائد اعظم، علامہ اقبال اور لیاقت علی خان کے پاکستان میں کوئی نظام نہیں یا انہوں نے بنایا نہیں، سارے باضابطہ نظام ہیں قانون ہیں لیکن ان پر مخصوص طبقے کی اجارہ داری ہے۔ اس اجارہ داری سے اس روائیتی سیاست سے نجات کا وقت آن پہنچا ہے۔ امید کی پہلی کرن پھوٹی ہے۔
جو معتبر ہستیاں انتخابات میں اپنے اپنے آبائی حلقوں سے شکست کھا چکی ہیں انکے پاس نہ تو کوئی اخلاقی جواز ہے اور نا ہی کوئی سیاسی جواز ہے، مسئلہ یہ ہے کہ جمہوریت جمہوریت کا راگ آلاپنے والے آمریت پسند لوگ ہیں۔ پاکستان میں ابتک کے سیاستدانوں کی تربیت آمریت کے ادوار میں ہوئی ہے جس کی وجہ ہے کسی نا کسی طرح سے ہر سیاست دان میں بشمول عمران خان آمر موجود ہے۔ کہیں بہت شدت سے ہے اور کہیں کم شدت سے ہے۔ یہ تمام لوگ اپنے آپ میں شہری آمر(سول ڈکٹیٹر) ہیں۔ نظام کی تبدیلی سے توقع کی جاسکتی ہے کہ اس مزاج میں بھی تبدیلی آجائے گی اور آنے والے اگلے دس پندرہ سالوں میں پاکستان جمہوریت کی اصل روح کو اپنے اندر جگہ دے سکے گا۔ اللہ نے عمران خان سے پہلے بھی ناممکن کو ممکن بنانے میں مدد کی ہے تو اب ہم سب ایک بار پھر اپنے رب سے پاکستان کی خاطر اور مدینہ جیسی ریاست کی خاطر عمران خان کیلئے خصوصی دعا کرینگے اور ہر ممکن اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کرینگے۔
انتخابات سے قبل ایک جملہ بہت سماع خراشی کا باعث بنارہا کہ ہمارے ووٹ سے کیا ہونا ہے جس نے جیتنا ہے وہی جیتے گا اور اقتدار کے مزے لوٹے گا۔ ستر سالہ تاریخ میں ملک کے استحکام اور سالمیت کیلئے کبھی کسی نے کچھ کر کے نہیں دیکھایا۔ یہاں سب کچھ دھکے کے بل بوتے پر چلتا رہا ہے۔ تبدیلی کیلئے بنیادی ضرورت اپنے آپ میں تبدیلی لانے کا عمل ہے جبکہ ہمارے لوگوں میں یہ چیز بہت عام دیکھی جا سکتی ہے کہ سامنے والا بدل جائے وہ اپنے طور طریقے صحیح کرلے، اگر وہ ایسا کرلے تو سب ٹھیک ہوجائے گا، اس سارے عمل میں دوسرے شخص پر ہی ساری تبدیلی کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے اور یقیناًبگڑے ہوئے حالات کا سبب بھی وہی شخص ہے۔
پاکستانی قوم نے ہمیشہ صرف اور صرف کرکٹ ٹیم سے توقعات رکھیں ہیں کہ دنیا کی ہر ٹیم کے مقابلے میں جیتے گی۔ اپنی محنت، کاوشوں اور اللہ کی مدد سے پاکستانی کرکٹ ٹیم بارہا ان توقعات پر پوری بھی اتری ہے اور اترتی جا رہی ہے۔ آج اگر ہمارے ملک میں بہت حد تک امن و امان کی فضاء قائم ہے تو اس میں ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بے تحاشہ قربانیاں ہیں، توقعات کے سفر میں قربانیاں دینا تو لازمی سی بات ہے پھر کہیں جاکہ منزل خود سامنے آکر قدم چومتی ہے۔ عمران خان کے متعارف کرائے جانے والے پروگرام کو امید کی آخری کرن قرار دینے والے پاکستان کے مایوس لوگ ہیں جبکہ یہ پروگرام پاکستان کی آخری نہیں بلکہ یہ پہلی کرن ہے اور مکمل اجالے کیلئے ایسی بے تحاشہ کرنیں پھوٹیں گی اور انشاء اللہ پاکستان بقعہ نور بن جائے گا۔ توقعات سے تکمیل کا سفر ابھی جاری ہے اور ہم سب ہی ہمسفر ہیں۔