تقدیر کے لکھے کو تو دھویا نہیں جاتا
غم حد سے زیادہ ہو تو رویا نہیں جاتا
مت پوچھیے بیتے ہوئے لمحوں کی کہانی
ہر درد تو پلکوں میں پرویا نہیں جاتا
دن بھر تو تِری یاد سکوں دیتی ہے مجھ کو
ہاں رات! مگر چین سے سویا نہیں جاتا
آہیں کوئی طوفان اٹھا سکتی نہیں ہیں
اشکوں سے تِرا نقش بھی دھویا نہیں جاتا
نالوں سے تِرے نغمے جُدا کر نہیں سکتی
لفظوں میں تِرا ذکر سمویا نہیں جاتا
جل جائیں جو کھلیان تو فصلیں نہیں اُگتیں
خوابوں کو کبھی راکھ میں بویا نہیں جاتا