یہاں ایسی فضا سہمی ہوئی ہے
کہ بادل میں گھٹا سہمی ہوئی ہے
چمن کے پھول بھی نوحہ کناں ہیں
پرندوں کی صدا سہمی ہوئی ہے
مسلسل بھوک ہے رقصاں یہاں پر
خودی، نخوت، انا سہمی ہوئی ہے
یہاں آؤ مرے بچو کہاں ہو
سدا سے مامتا سہمی ہوئی ہے
محبت کا یہاں انجام دیکھو
کہ کونے میں وفا سہمی ہوئی ہے
یہاں اب نازنیں اور مہ جبیں کی
ہر اک دلکش ادا سہمی ہوئی ہے
نہیں ہے کچھ بچا ایسا کرن اب
عدو کی بد دعا سہمی ہوئی ہے