جو رگ و پے میں رواں جوشِ لہو ہے تو ہے
دل دھڑکتا ہے جو سینے میں وہ تو ہے تو ہے
تو مرے سانس کی تسبیح عبادت ہے مری
جو مرے عشق میں آنکھوں کا وضو ہے تو ہے
لاکھ ہوتا ہی رہے گرچہ دریدہ دامن
جو مری روح کا ہر زخم رفو ہے تو ہے
یہ چمن آج بھی مہکا ھے تری یادوں سے
جو بھی گلزار کا اب رنگ ھے بو ہے تو ہے
تجھ سے تازہ ہے گلستانِ محبت میرا
دل کے جو پھول کی مہکار نمو ہے تو ہے
اب کوئی پھول ہو کانٹا ہو یہ قسمت میری
جو بھی ہے دوست ہے دشمن ہے عدو ہے تو ہے