زخموں سے دل ہمارا اب چور ہوگیا
اک زخم تھا پرانا ناسور ہوگیا
کیسے سنائیں قصے اپنے ہی رتجگوں کے
اب جاگنا ہمارا مشہور ہوگیا
پل بھر ہی حسنِ یار کو دیکھا گیا مگر
پھر یہ کہ عشق جلتے ہی طور ہوگیا
پھر یاد آ گیا ہے بیدرد شام کو
پھر آج دل ہمارا رنجور ہوگیا
اب دل پہ کب ہے کوئی بھی قابو رہا مجھے
یہ ساتھ رہ کے تیرے مغرور ھو گیا
ڈھوتا ہے تیری یاد کو دیکھو یہاں وہاں
اب دل ہمارا یوں ہی مزدور ہوگیا
دیکھو کرن کے دل کو ہےسادہ کس قدر
دیکھا ہےتجھ کو جب سے مسرُور ہوگیا