1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. معاذ بن محمود/
  4. ایک نسل جا رہی ہے

ایک نسل جا رہی ہے

ہوا یہ کہ میری نوکری ختم ہوگئی۔ کیوں کیسے یہ ایک الگ کہانی ہے۔ کرائے کا گھر تھا۔ ایک اولاد دو سال کی تھی، دوسری چند ماہ میں دنیا میں آنے والی تھی۔ پریشانی ہوئی، لازمی سی بات ہے ہونی تھی۔ توکل وغیرہ اس وقت تک بہت اچھا لگتا ہے جب تک سر پر نہ گزر رہی ہو۔ جب سر پر پڑی ہو تو انسان یہاں وہاں ہاتھ دیکھتا ہے۔ ویسے ہی جیسے عمرے کے دوران حجر اسود کے دیدار کے چکر میں بیہوش ہونے کے قریب میں دیکھ رہا تھا۔

اس وقت ایک ہاتھ آیا اور کھینچ کر باہر نکال لیا۔ ویسا ہی ہاتھ ان دنوں ابا مرحوم کا آیا تھا۔ کہا میرا پلاٹ پڑا ہے وہیں کہیں گھر ڈھونڈ اور ٹھیکیدار کی جگہ تو کھڑا ہوجا۔ جو پیسے وہاں دوں گا وہی تو لے لینا۔ میں نے حامی بھر لی۔ مجبوری تھی کیونکہ پینتیس ہزار تنخواہ چھوڑ کر دس ہزار ماہانہ کے لیے ٹیکنیکل رائٹر کے انٹرویو بھی دیے مگر نہ وہ بھی نہ ملے۔ یہ اور بات ہے کہ تب سے اب تک ٹیکنکل رائٹنگ ہو یا بلاگنگ، پروفیشنلی اور پرسنلی ٹکا کر جاری ہے۔

میں راولپنڈی چوہڑ چوک سے اندر مصریال روڈ سے آگے جا کر رزاق ٹاؤن جہاں پلاٹ تھا وہیں قریب گھر کرائے پر لے کر پہنچ گیا۔ یہ علاوہ تب یعنی 2009 میں سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی کی نسبت کافی پیچھے تھا۔ یہاں گھر لیا تو عتیق صاحب سے ملاقات ہوئی۔ عتیق صاحب ٹیکسی چلتے تھے اور اسی گلی میں آگے جا کر رہتے تھے۔ ہمیں جب ٹیکسی کی ضرورت ہوتی عتیق صاحب اکثر مل جاتے۔ بعد ازاں میں نے ان سے موبائل نمبر لے لیا اور پھر عتیق صاحب ہی ہمارے آفیشل ڈرائیور بن گئے۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب مجھے دبئی میں جاب آفر ہوئی۔ میں صبح ارماڑہ بلوچستان سے کراچی اور کراچی سے راولپنڈی پہنچا۔ رات کو میری دبئی کی فلائٹ تھی۔

میرے جانے کے بعد میرے سارے ڈاکیومنٹس جو ایچ ای سی سے اٹیسٹ ہونے تھے میری اہلیہ اور ساس نے عتیق صاحب کی مدد ہی سے تیار کروائے۔

عتیق صاحب دل کے مریض ہیں۔ اس وقت بھی طبیعت کوئی بہت اچھی نہ ہوتی تھی۔ تاہم بعد ازاں حالات اتنے خراب ہوئے کہ ٹیکسی چلانے سے بھی رہ گئے۔ تب انہوں نے وہیں گلی میں ہی ایک کریانے کی دوکان کھولی اور کسی نہ کسی طرح گزر بسر کرنے لگے۔

عتیق صاحب کی غالبا تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ قدرت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ چاروں ہی نارمل نہیں۔ سارے بچے جوان ہیں مگر خود کو سنبھالنے کے قابل نہیں۔ رخسانہ آنٹی، عتیق صاحب کی بیگم تھیں۔ ان دونوں نے ایک زمانے میں بہت اچھا وقت دیکھا تھا۔ ٹھیک ٹھاک کاروبار تھا مگر کسی نہ کسی وجہ سے سب کچھ جاتا رہا اور پھر گردش دوراں کے ہاتھوں ایسے حالات میں آگئے جن کا اوپر ذکر کیا۔ رخسانہ آنٹی نہایت سے زیادہ محبت کرنے والی خاتون تھیں۔ اردو سپیکر تھیں، ہاتھ میں ذائقہ خوب تھا۔ ہم جب ابو ظہبی سے پاکستان جاتے گھر کے حالات جیسے بھی چل رہے ہوں ہماری دعوت کرتیں اور اپنے ہاتھ سے پکا کر ہمیں کھلاتیں۔

گزشتہ روز رخسانہ آنٹی کا انتقال ہوا۔ یہ خبر سن کر بیگم عجیب سی ہو گئیں۔ شاید عجیب سی ہی رہتیں لیکن کیا کیا جائے کہ کاروبار دنیا کا حصہ بھی بن کر رہنا ہے۔ صبح آفس جانا تھا سو کسی نہ کسی طرح نیند کی پناہ لے بیٹھیں۔ ہماری اس بارے میں رات کے بعد بات نہیں ہوئی۔ ہاں یہ مضمون پڑھ کر ضرور روئیں گی اس کا مجھے اندازہ ہے۔

میں نے کثرت اولاد پر کوئی بھاشن نہیں دینا۔ آخر کو معاشرے میں مروجہ تاکیدات میں یہ قابل ذکر ہے۔ تاکیداتِ ھذا کی کڑیاں اوپر والے سے ملائی جاتی ہیں۔ آپ میں سے بھی کسی نے ملانی ہے تو ملا لے، میرا سوال نہایت سادہ سا ہے۔

رخسانہ آنٹی کے بچے اب کیا کریں گے؟ عتیق صاحب رخسانہ آنٹی سے کہیں پہلے کے اور کہیں زیادہ بیمار رہے ہیں۔ وہ بچے جو اپنا آپ خود نہیں سنبھال سکتے، وہ اس دور میں کیا کریں گے؟ کیا ہوگا ان انسانوں کا؟

لگے ہاتھوں ایک اور غم بھی سن لیجیے۔

میں کینگرو آئی لینڈ میں بیوی بچوں گاڑی سمیت فیری سے اترا۔ تھوڑا آگے جا کر انفارمیشن سینٹر تھا۔ اندر گیا۔ کوئی پون گھنٹے تک اگلے چھتیس گھنٹوں کی منصوبہ بندی کرتا رہا۔ واپس آکر گاڑی میں بیٹھا تو بیٹھتے ہی بیگم نے خبر سنائی۔

"بلقیس پھپھو کا انتقال ہوگیا ہے"

انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔

میں یہ بات پہلے بھی بتا چکا ہوں شاید، پھر بتا دیتا ہوں۔ میری پہلی جاب آخری سمسٹر کے آغاز میں اسلام آباد میں لگی تھی۔ پشاور سے پہلی بار باہر نکلا۔ جڑواں شہر میرے لیے انجان تھے۔ میں کبھی ماں باپ کے بغیر رہا نہیں تھا۔ اس وقت انہی پھوپھی نے مجھے ماں باپ کا پیار دیا۔ میری تین کزنز تھیں جن میں سے ایک کی شادی ہوچکی تھی اور باقی دو کی ہونے والی تھی۔

پھوپھی کا ایک بیٹا بھی تھا جو میرے چھوٹے بھائی کا ہم عمر تھا۔ پھوپھیوں کے اپنے سکول ہیں۔ مجسٹریٹ کالونی راولپنڈی میں جو لوگ رہتے یا رہ چکے ہیں وہ سنی ماڈل سکول سے ممکن ہے آگاہ ہوں۔ یہ انہی پھوپھی کا ادارہ تھا جو بعد میں دو برانچز میں تقسیم ہوگیا تھا۔ پرائمری برانچ یہی پھوپھی سنبھالتی تھیں۔ یہاں میں پڑھایا بھی کرتا تھا اور اکثر صبح کی کلاس لے کر آفس نکل جاتا تھا۔

پھپھو شدید پیار کرنے والی خاتون تھیں۔ میں خاندان کے لائق ترین بچوں میں سے تھا جو ایک اور وجہ تھی محبت کی۔ یہی پھپھی ابا مرحوم کے قریب بھی تھیں۔ ابا انہی کی سنتے بھی تھے اور انہی کے لیے لڑنے بھڑنے پر بھی آمادہ ہوجایا کرتے تھے۔ پھوپھی اور مجھے لہسن کا سرکے والا ایرانی اچار بہت پسند تھا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب لہسن کھا کھا کر ہم دونوں کی زبان پک گئی تھی اور ہم دونوں کے لیے پھیکا کھانا بنتا تھا۔ میرا کزن چھوٹا تھا، کبھی کبھار کام کاج سے دور بھاگتا۔ ایسے میں مجھ سے درخواست کی جاتی اور میں بخوشی یہ درخواست قبول کرتا۔ مجھے پھوپھی کا کام کرنا بھی اچھا لگتا تھا۔ وہ اتنی اپنائیت سے کہا کرتیں کہ میں انکار کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

پھر کچھ ایسا ہوا کہ مجھے پھوپھی کا گھر چند خاندانی مسائل کی وجہ سے اچانک چھوڑنا پڑا، اور وہ بھی اس طرح کہ میں آفس سے گھر آیا تو میرا سامان پیک تھا۔ اس میں پھوپھی کا قصور نہیں تھا۔ مجھے ان سے شکایت بھی نہیں تھی۔ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔ اگلے چند دن میں نے آفس میں چھپ چھپا کر گزارے کیونکہ رہنے کا کوئی فوری ٹھکانہ موجود نہ تھا۔ سخت دن تھے۔ بہرحال کسی نہ کسی طرح گزر گئے۔

میں اسلام آباد جاب کرتا رہا۔ شادی ہوئی بیگم راولپنڈی آئیں۔ ہمارے بچے ہوئے۔ میں اس دوران دو ماہ کابل بھی رہ کر آیا۔ پھر واپس آکر شاید ایک سال بعد دبئی چلا گیا۔ اسی دوران ان پھوپھی کو فالج کا اٹیک ہوا۔ وقت چلتا رہا۔ کئی برس شاید سات آٹھ برس بعد میں چھٹیوں پر پاکستان آیا۔ میں پاکستان کم ہی آتا تھا۔ شاید دو سال میں ایک بار۔ پھر میں رشتہ داروں سے دور بھاگتا تھا۔

اس بار میرا دل پھوپھی سے ملنے کا ہوا۔ میں اکیلا بلقیس پھپھو کے گھر پہنچ گیا۔

وہی گلیاں، وہی سکول، وہی گھر، وہی سیڑھیاں، وہی دروازہ۔

دروازے پر دستک دی۔ دروازہ کھلا۔ میں اندر پھوپھی کے کمرے میں داخل ہوا۔ انہیں دیکھا۔

اور پھر ہم دونوں دھاڑیں مار مار کر آنسووں سے رونا شروع ہوگئے۔

مجھے نہیں یاد ہم کتنی دیر روئے۔ ہاں اتنا یاد ہے کہ ذرا آنسو تھمے تو دیکھا کہ کام کرنے والی خاتون ہمیں آنکھیں پھاڑیں دیکھ رہی تھیں۔ وہ مجھے جانتی بھی نہیں تھیں۔

کافی دیر پرانی یادیں تازہ کرنے کے بعد میں نے رخصت لی اور چلا گیا۔

اس کے بعد میں پھوپھی سے ایک آخری بار 2020 میں ملا۔ اس بار میرے تین بچے تھے۔ ہم سب گرینڈ فیملی سوائے میرے امریکہ والے بھائی کے ان سے ملے لیکن ظاہر ہے اس طرح باتیں نہ ہو سکیں جیسے اس سے پہلے ہوئی تھیں۔ اور پھر ہم اللہ حافظ کر کے واپس گھر کو چلے گئے۔

مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ میرا ان کے لیے اور ان کا میرے لیے آخری اللہ حافظ ہوگا۔

پردیس کی سڑکیں سہانی ہیں، آسمان اجلا ہے، لوگ دیانت دار ہیں، معاش آسان ہے، اولاد محفوظ ہے، مستقبل بہتر ہے۔

لیکن

بہرحال پردیس میں اپنے پیاروں کو الوداع کہنے کی سہولت میسر نہیں ہے۔

ہماری ایک نسل جا رہی ہے۔ میرے معاملے میں اس کا آغاز بہت پہلے چچا کی وفات سے ہوا تھا۔ اس کے بعد بہت بڑا جھٹکا ابا کی وفات کے وقت لگا۔ پھر 2021 میں پشاور میں مقیم پھوپھی کی وفات ہوئی۔ اور اب راولپنڈی میں مقیم پھوپھی کی۔

ہاں، میں بے حسی طاری کیے رکھتا ہوں، مگر اس کے پیچھے ہمت کی کمی ہوتی ہے۔ میں اب تک اپنی کزن سے بات نہیں کر پایا۔

کیا بات کروں؟ کیا کہوں؟ کیسی تعزیت؟ اس کی ماں گئی، میری پھوپھی۔ ہم ایک چھت کے نیچے رہے ہیں۔ میری ہمت نہیں ہو رہی۔ اب بھی نہیں ہو رہی۔

میں اپنے گھر والوں سے کیا تعزیت کروں؟

ہماری ایک نسل جا رہی ہے۔

اور ہم اسے روک نہیں سکتے۔