1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. معاذ بن محمود/
  4. عورت آزاد ہو رہی ہے

عورت آزاد ہو رہی ہے

وقت بدل رہا ہے۔ ہوں گی بری باتیں بہت مگر مجھے اچھی باتیں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ مثلاً، کیا ہے اچھی بات؟ عورت معاشی طور پر آزاد ہو رہی ہے۔

ہاں لیکن ارتقاء یکدم برپا نہیں ہوتا۔ آدم سے جبار اگربتی والے تک نامعلوم کتنا فاصلہ ہے۔ تین اعشاریہ دو ملین برس قبل زندہ رہنے والے Lucy سے معاذ بن محمود کے درمیان زمانہ البتہ معلوم ہے۔ ارتقاء سست ہے مگر ہے۔ یہ اہم بات ہے۔ جو یہ بات سمجھ نہ پائیں Lucy Humanoid گوگل کر لے۔ امید ہے وضاحت مل جائے گی۔

ارتقاء۔۔ انسانیت کا ارتقاء۔ معاشرے کا ارتقاء۔۔ جہاں پدرسری معاشرہ کسی وقت اس زور سے برپا ہوا کہ ایک عرصہ انسانیت کو اپنی مٹھی میں جکڑے رہا۔ انسانیت کا وصف البتہ عضو تناسل یا اندام نہانی نہیں۔ انسانیت کا وصف عقل ہے جسے اکثر احباب اشرف المخلوقات ہونے سے تعبیر کرتے ہیں۔ انسانیت کا وصف انسانی عقل ہے، دلیل ہے، منطق ہے۔ انسانیت کا وصف اسی بنیاد پر انسانیت کی adaptability ہے یعنی زمان و مکان کے مسائل کے مطابق اپنی نسل کی بقاء کے واسطے خود کو حالات کے مطابق ڈھال دینا۔

ہمارا معاشرہ ایک ایسا معاشرہ تھا جہاں مرد اور عورت کی ذمہ داریاں منقسم تھیں، معلوم تھیں۔ اس دوران کچھ خواتین کو اس تقسیم کی مخالفت میں جاتے دیکھا۔ وجہ روٹی کپڑا مکان ہی تھی۔ روٹی جو زندہ رہنے کو لازم ہے۔ کپڑا جو معاشرے میں اپنا وجود برقرار رکھنے کو لازم ہے۔ مکان جو روٹی اور کپڑا ڈھونڈنے کو لازم ہے۔ کسی وقت معاشرے میں چند انسانوں کو روٹی کپڑا مکان کے حصول میں مشکل کا احساس ہوا۔ اگلوں نے پینترا بدلا۔ عورت جو گھر میں قید رکھی جاتی تھی، اب بس ہوئی سوچ کر کمانے نکل کھڑی ہوئی۔ جہاں موقع ملا وہیں سے شروع ہوگئی۔

یہاں سے معاشرے نے تغیر پکڑا۔ عورت مرد کے شانہ بشانہ اٹھ کھڑی ہونے لگی۔ تبدیلی تھی۔ مروجہ رسوم و رواج سے ہٹ کر تھی سو مدافعت دیکھنے کو ملی۔ ارتقاء مگر اثبات کی جانب گامزن تھا۔ عورت کے لیے بغیر تعظیم آگے بڑھنا مشکل تھا۔ اسے تعظیم چاہیے تھی۔ جلد یا بدیر اس نے یہ تعظیم بھی حاصل کر لی۔ ہر ارتقاء ہر تغیر کو وقت لگتا ہے سو اس میں بھی لگا۔ مزید برآں یہ تغیر اچانک خطہ زمین کے ہر انچ پر شروع نہ ہوا بلکہ کہیں کہیں سے شروع ہوکر نوع انسانی کے پھیلاؤ کے ساتھ پھیلتا گیا۔

فاسٹ فارورڈ کرتے ہیں۔ عورت نے معاشرتی سطح پر ذمہ داریاں لینی شروع کیں تو ردعمل آیا۔ صدیوں جس صنف انسانی کو انسان کم تر سمجھتا آیا جب اس نے اپنا آپ مساوی ثابت کرنا شروع کیا تو مرد کو تکلیف ہونی تھی، سو ہوئی۔ عملی طور پر ناکام ثابت نہ کر پایا تو پھبتیاں فطری تھیں۔ پھبتیاں عورت پر بھی اور اس مرد پر بھی جس نے عورت کی معاشی خود مختاری کا ساتھ دیا۔

قریب 13 برس میری نصف بہتر نے ایک گھریلو خاتون کا کردار ادا کیا۔ یہ قریب 4745 دن بنتے ہیں۔ ہم پشاور رہے، اسلام آباد رہے، کراچی رہے، عجمان رہے، ابو ظہبی رہے۔ ان تمام شہروں میں اہلیہ نے امور خانہ داری کی وزارت سنبھالنے پر اکتفا کیا۔ آج مڑ کر دیکھتا ہوں تو لگتا ہے اس کے سوا کوئی خاص چارہ بھی نہ تھا۔ بچے چھوٹے تھے۔ بچہ آج بھی چھوٹا ہے تاہم ماضی میں ریاست کی جانب سے یہ احساس نہیں تھا کہ بچے چھوٹے ہوں تو عورت کے لیے مالی طور پر آزاد ہونا نسبتا پچیدہ ہو سکتا ہے۔ مزید برآں ان معاشروں میں عورت کا مالی خود مختاری کی جانب قدم اٹھانا بھی alien سا سمجھا جاتا تھا۔

میلبرن پہنچے تو معاشرے میں تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ ایک عام بیانیہ رائج تھا کہ گھر کا پہیہ دونوں نے مل کر چلانا ہے اور اس میں کوئی برتری نہیں۔ کمانے والا ایک بندہ آسانی سے آگے نہیں بڑھ پائے گا۔ بیگم نے تعلیم کا سلسلہ وہیں سے جاری کرنے کا فیصلہ کیا جہاں سے چھوڑا تھا۔ برصغیر میں شادی کے چکر میں دی جانے والی قربانیوں میں یہ سرفہرست سمجھی جاتی ہے۔ ناصرف والدین بلکہ خواتین خود شادی کے چکر میں تعلیم کی اہمیت صفر سمجھا کرتی تھیں۔ ارتقاء عمل پذیر ہے لہذا یہ بھی بدل رہا ہے۔

بیگم نے تعلیم سے پھر سے جڑ جانے سے آغاز کیا۔ اس کے بعد جاب کی طرف جانا چاہا۔ سچ پوچھیے تو تب تک میری سوچ یہی تھی کہ تمہیں جاب کی کیا ضرورت ہے؟ میری اچھی خاصی سیلری ہے جس میں گزارا اللہ کا کرم ہے اچھا ہو رہا ہے۔ بلاوجہ تھکاؤ گی خود کو۔ ایک اور سوچ یہ تھی کہ شاید یہاں بھی پاکستان یا امارات کی طرح در در کی خاک چھاننی پڑے گی ملازمت کے چکر میں۔ بیگم البتہ ثابت قدم رہیں۔ مزید یہ ہوا کہ یہاں جاب کے لیے خواری بھی نہیں کرنی پڑی۔ اگلوں کو پتہ چلا کہ خاتون ہے اور فارغ ہے خود بلا کر چائلڈ کئیر سیکٹر میں جاب دی۔

خود کو خواتین کی آزادی کا علمبردار کہنا آسان ہے۔ اپنے عمل سے یہ بات ثابت کرتے ہوئے آپ کو عادتیں تبدیل کرنی پڑتی ہیں۔ یعنی تکلیف ہوتی ہے۔ میں نے زندگی میں کبھی بچے نہیں سنبھالے تھے۔ حالانکہ بچے میرے ساتھ اکثر معاملات میں ماں سے بڑھ کر جڑے رہتے ہیں، پھر بھی۔ بیگم کی جاب شروع ہوئی تو پہلا معاملہ میکائیل کا آیا۔ اسے میں نے پالنا تھا۔ میں ورک فرام ہوم پر ہوں۔ تین ساڑھے تین بجے کام شروع کرتا ہوں رات دس گیارہ تک چلتا ہے۔ سوچا ٹھیک ہے ساڑھے تین بجے تک باقی دو بچے آتے ہیں تب تک میکائیل کو میں سنبھال لوں گا۔

یہاں پر ریاست کا کردار نہ سراہنا زیادتی ہوگی۔ ریاست آپ کو کہتی ہے کہ میاں بیوی دونوں باہر نکلو اور کماؤ۔ کما کر اپنی زندگی بھی بہتر کرو اور سرکار کو ٹیکس بھی اچھا دو۔ اگر کسی چھوٹے بچے کی وجہ سے کمائی نہیں کر پا رہے تو یہ لو تمہارے ہی دیے گئے ٹیکس میں سے تمہارے لیے سہولت، جاؤ بچے کو کسی بھی چائلڈ کئیر میں داخلہ دلواؤ۔ پانچ دن کام کرنا ہے تو نوے فیصد تک بچے کا خرچہ سرکار اٹھائے گی دس فیصد خود دو۔

تین ماہ میں نے میکائیل کو سنبھالا اس کے بعد ہفتے کے پانچ دن میکائیل اسی چائلڈ کئیر میں جانا شروع جہاں بیگم جاتی ہیں۔ چائلڈ کئیر کی پالیسی مزید یہ کہ وہ جو دس فیصد دینا ہوتا تھا وہ بھی سمجھیں نوے فیصد ختم۔ معاشرے کی ہر اکائی عورت کی مالیاتی خود مختاری کو سپورٹ کرتی ہے۔

رمضان کا آغاز ہوا۔ ہم سارے گھر والے روزے لازمی رکھتے ہیں۔ اس بار مشکل یہ تھی کہ ہمارا ۱۳ برس پرانا شیف اب شیف سے ٹیچر بن چکا تھا اور عین افطاری کے وقت فارغ ہوتا۔ یہاں سے دو راستے تھے۔ یا کھانا باہر سے منگوایا جائے یا پھر معاذ صاحب شیف معاذ بن کر میدان میں اتر پڑیں۔

ہم نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ ابتداء تجرباتی طور پر لیکن میں نے نوٹ کیا کہ چونکہ مجھے کھانے کا شوق ہے لہذا پکانے کو بھی شدید انجوائے کر رہا ہوں۔ یوں میں نے زندگی میں پہلی بار ایک وقت کا کھانا بنا کر پوری فیملی کو کھلایا۔ اتفاق سے سب کو پسند بھی آیا۔ میں نے سوچا رمضان میں اپنے ذمے لے لیتا ہوں۔ یہی ہوا لیکن رمضان کے آخر تک میں کھانا پکانے کو شدید انجوائے کرنے لگا تھا۔

اور یوں میں نے ہفتے میں دو دن چھوڑ کر جب میری میٹنگز ہوتی ہیں، کھانا پکانا بھی اپنے سر لے لیا۔ اہلیہ اور میکائیل صبح دس بجے جاتے ہیں۔ یہ وقت میرے لیے فجر کا وقت ہوا کرتا ہے۔ مجھے صبح اٹھنا نہیں پسند۔ یہ دونوں ٹیکسی پکڑ کر پہنچ جاتے ہیں سکول۔ بڑے والے بچوں کا سکول دو گلی چھوڑ کر ہے۔ وہ پیدل آتے جاتے ہیں۔ میں ایک ڈیڑھ بجے اٹھ کر کھانا بناتا ہوں اور پھر کام کرنے بیٹھ جاتا ہوں۔ چھ بجے میکائیل اور ام میکائیل کو لینے گیا اور واپس آکر کھانا۔ کھانے کے بعد کام پھر جاری۔

کچھ تبدیلیوں سے مجھے عشق ہونے لگا ہے۔ مثلاً میں مالیات سنبھالنے کے معاملے میں اسد عمر ہوں۔ اسد عمر تو پھر باتیں کر لیتا ہے عملی طور پر صفر ہے میں باتیں بھی نہیں کر سکتا۔ اسی لیے چاہے جتنا بھی کما رہا ہوتا مہینے کے آخر میں وہی حالات ہوتے جو اکثر لوگوں کے ہوا کرتے ہیں۔ اب البتہ ایسا نہیں ہوتا۔ اب میں مہینے کے آخر میں بخوشی بیگم کی کفالت میں آجایا کرتا ہوں۔ بہت مزا آتا ہے۔

پہلے بیگم نے جو منہ بڑا سا کھول کر فرمائشیں کرنی ہوتی تھیں اب وہ شاذ ہی ہوتی ہیں۔ خود کر لیتی ہیں بلکہ میری فرمائشیں بھی پوری کرتی ہیں۔ اکثر گھر بیٹھے گھنٹی بجتی ہے اور بیگم کے نام بڑا سا پارسل موصول ہوتا ہے۔ پہلے یہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ یہ ایک الگ خوشی ہے۔ "کھانا کہاں کھلا رہی ہو آج؟" بھی اب ایک معنی رکھتا ہے۔

سب سے بڑی بات۔۔ اب بیگم اپنے پیروں پر کھڑی ہیں۔ یہ میرے لیے سکون کی بات ہے۔ جو ذمہ داری اکیلے میرے کاندھوں پر تھی اب وہ درست معنوں میں تقسیم ہورہی ہے۔ میرے لیے یہ خوشی کی بات ہے۔ اس سے زیادہ خوشی کی بات یہ کہ ہمیں ارد گرد سے، رشتہ داروں سے، دوستوں سے سپورٹ ہی ملی۔ بیگم الگ خوش کہ ان کا ایک سرکل بن رہا ہے۔ میں پہلے کبھی یہ سوچ کر جاب نہیں چھوڑ سکا کہ مزا نہیں آرہا۔ تب گھر ایک تنخواہ سے چلتا تھا۔ اب میرے پاس یہ عیاشی بھی میسر ہے کہ پسند نہ آئے تو نوکری چھوڑ دوں۔ دوسری تلاش کر لوں۔

وقت بدل رہا ہے۔ ہوں گی بری باتیں بہت مگر مجھے اچھی باتیں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ مثلاً، کیا ہے اچھی بات؟

عورت معاشی طور پر آزاد ہو رہی ہے۔ ہو کر رہے گی۔ جو کرنا ہے کر لیجیے۔