عورت مارچ پر کوئی بھی فریق جتنا چاہے شور کر لے، حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہر عورت دن کے چوبیس گھنٹے سال کے تین سو پینسٹھ روز حقیقی یا ڈیجیٹل زندگی میں خود کو مرد سے اس کی صنف کی بنیاد پر محفوظ نہیں سمجھتی، یہ کوشش جاری رہنی چاہئے اور رہے گی۔
جب تک وطنِ عزیز میں موجود ہر صنف بشمول عورت، دوسری عورت کی غیر موجودگی میں اس کا ذکر کرتے ہوئے اس کی صنفی خصوصیات کی بنیاد پر اس کے کردار اور حقوق و فرائض کا تعین کرنا نہ چھوڑ دے، تب تک بھی یہ مارچ اور اس سے متعلقہ کوششیں جاری رہنی چاہئے ہیں۔
تعظیم کا ڈھکوسلہ جتنا چاہے کر لیا جائے، دل میں لاشعوری طور پر عزت نہ ہو تو چھپ نہیں پاتی۔ جب تک عورت کی عزت کیا جانا شعوری کوشش کی بجائے لاشعوری طور پر نارم اور عام سی بات کا درجہ اختیار نہ کر لے، تب تک بھی عورت مارچ اور متعلقہ کوششیں جاری رہنی چاہئے ہیں۔ تاحال یہ عزت شعوری طور پر معاشرے کے مغز میں مجموعی طور پر فٹ کرنے کی اک سعی ہے جس کی بنیادی وجہ صنف کو بنیاد بنا کر اسی معاشرے کے مجموعی دماغ میں عورت کے لیے موجود لاشعوری تفریق ہے۔
جیسے زید اور بکر کا نام آتے ہی ہمارے ذہن میں لاشعوری طور پر ان مردوں کا برابر ہونا طے ہوتا ہے، ویسے ہی زید اور شازیہ کو بھی لاشعوری طور پر برابر ہونے تک یہ مارچ اور متعلقہ کوششیں جاری رہنی چاہئے ہیں۔
ان بنیادوں پر مبشر زیدی جو یہ سمجھتا ہے کہ عورت کی کامیابی اس کی صنف سے متعلقہ اعضاء کی مرہون منت ہے، اور وہ شخص جو انہی اعضاء کی بنیاد پر عورت کو کامیاب یا ناکام کرنے کروانے پر یقین رکھتا ہے، دونوں ہی ملعون و مطعون ہیں اور اپنی سوچ و افکار میں عورت کو معاشرے میں برابر کے حقوق دینے کے خلاف ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ آج تک ان دونوں کو اس بات کا احساس نہیں ہو سکا۔
اس کے آگے۔۔ بس ذیلیات ہیں۔