1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. معاذ بن محمود/
  4. اے خدا کاش میں خدا ہوتا

اے خدا کاش میں خدا ہوتا

رات دیر سے سویا۔ سوچا دوپہر کو آرام سے دو بجے تک اٹھوں گا۔ صبح گیارہ بجے میکائیل کے سکول سے کال آگئی کہ چڑچڑا ہو رہا ہے اسے لے جاؤ۔ میں بستر میں پڑا تھا، کہا گھنٹہ لگے گا۔ عشیم کی چھٹی تھی۔ اسے اور میکائیل کو سینڈل دلانے تھے۔ مجھے تیار ہونے میں گھنٹہ لگا، اور پھر میں اور عشیم میکائیل کو سکول سے اٹھاتے ہوئے مال پہنچ گئے۔ مال میں ہم بلاوجہ پھرتے رہے۔ سب سے پہلے ہم بک سٹور گئے جہاں سے عشیم نے کچھ کتابیں خریدنی تھیں پڑھنے کے لیے۔ پھر JB HiFi نامی اپلائینس اور گیجٹ سٹور گئے۔ یہاں سے ایک آدھ آئٹم ایویں خرید لیا۔ اور پھر ایک اور جگہ چلے گئے جہاں سے میکائیل کو اس کا ٹرک دلا کر باقی سینڈل وغیرہ خریدے اور گھر کی جانب نکل پڑے۔

جلدی اٹھنے کے بعد بھی موڈ اچھا تھا۔ بچے ساتھ تھے، بچے خوش تھے، موسم اچھا تھا، سو میں بھی خوش۔ مال سے نکلتے ہی کوئی پانچ سو میٹر آگے جا کر سگنل آتا ہے۔ یہ میجر سگنل ہے۔ ٹریفک دن کے وقت ہیوی ہوتی ہے۔ سگنل میرے لیے سرخ تھا۔ ایک بار ہرا ہوا مگر وقت نہ مل سکا زیادہ اور پھر سرخ ہوگیا۔ اب میں سگنل میں سب سے آگے تھا۔

سگنل پر کھڑے ہوکر آپ کے پاس مشاہدے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ میں نے بھی مشاہدے کی نیت سے یہاں وہاں نظریں دوڑانی شروع کیں۔ میرے دائیں جانب اکیس بائیس سال کا نابینا آسٹریلین جوان کھڑا تھا۔ عموما میرے لیے کسی کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا مشکل ہوتا ہے تاہم نابینا تھا سو سوچا کیا برا مانے گا۔ یہاں سے میرا موڈ خراب ہونا شروع ہوا۔ لڑکا مسکرا رہا تھا، پلکیں غیر معمولی توقف کے ساتھ جھپک رہا تھا۔ ایک ہاتھ میں سفید چھڑی لیے دوسرے ہاتھ سے سگنل پر لگے بٹن کے آس پاس ہاتھ مار رہا تھا جسے دبا کر پیادہ افراد کا سگنل کام کرتا ہے۔ یہاں ایسا ہر سگنل ہرا ہوتے ہی آواز آتی ہے تاکہ نابینا افراد کے لیے آسانی ہو۔

میں قریب دو منٹ اس لڑکے کو دیکھتا رہا۔ ذہن میں سوال جاگا۔۔ اس کی کیا غلطی ہے اور میرا کیا کارنامہ ہے کہ اسے نابینا بنایا گیا مجھے گاڑی میں بٹھا کر اسے دیکھنے کا موقع دیا گیا؟ کس زاویے سے یہ انصاف ہے آخر؟ مخلوق اگر خالق کے کمال کی مظہر ہے، تو اس کمال میں یہ نقص کیسے اور کیوں؟

میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ پیدل چلنے والوں کا سگنل ہرا ہوگیا۔ نابینا نوجوان ایسے چلا جیسے بہت خوش ہو، مطلب ایک جوش کے ساتھ۔ ابھی میں اس کی چال کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ وہ سڑک پار کرتے ہوئے عین وسط میں پہنچ کر زیبرا کراسنگ والے ٹریک سے ہٹتا ہوا مین سڑک کی جانب چل نکلا جہاں گاڑیاں رواں تھیں۔ ایک بار پھر، اس سے پہلے کہ دماغ میں کچھ آتا، دوسری جانب سے سڑک پار کرتی ایک لڑکی کی نظر اس لڑکے پر اتفاقیہ طور پر پڑی اور وہ اسے بچانے بھاگ کھڑی ہوئی۔ لڑکی نے جلدی سے نابینا لڑکے کو واپس فٹ پاتھ پر گامزن کیا اور اسے غالبا بتایا کہ تم سڑک پر چل پڑے تھے۔

اب میرا سگنل کھل چکا تھا اور میں نم آلود آنکھوں کے ساتھ Life goes on کی پتھریلی مثال بن کر آگے چل نکلا تھا۔

لیکن اس دوران کئی سوال تھے جو ذہن میں آئے، اور پھنس کر رہ گئے۔

اتفاق دیکھیے، جس وقت یہ ہوا بیک گراؤنڈ میں"ہم بھٹکتے ہیں۔۔ کیوں بھٹکتے ہیں؟" چل رہا تھا۔

بقول شاعر۔۔

اے خدا کاش میں خدا ہوتا

اور تو پھر مری جگہ ہوتا