ناہنجار ہاشمی مقدمے کے فیصلے کا دن۔ آج طبیعت بوجھل رہی۔ ناہنجار ہاشمی کی دھمکیوں کا جواب دینا تھا۔ میرے اندر ضمیر اور خبث کی ایک جنگ تھی جو سات سیکنڈ میں نمٹا لی گئی۔ میں خدائے وردی پنڈی وال بزرگ و برتر کا بابا رحمتاں، پنڈی والوں کا اسلام آباد میں اوتار، سمجھتا ہوں کہ خبث کو جیتنے نہیں دیا جا سکتا۔ ضمیر نے اندر کے خبیث کو سات کمزور لمحات میں ہرا ڈالا۔ فیصلہ کیا کہ ناہنجار ہاشمی کو نہال کردیا جائے۔ لیکن اس کے بعد سے بدہضمی ہے۔ اندر کے خبیث نے معدے کے قریب دھرنا دے رکھا ہے۔
پنڈی سے پیغام آیا عزت ٹانگ کے میل جیسی ہے۔ میں نے ہاتھ کا میل سنا تھا۔ ٹانگ کا نہیں۔ دیکھنے کی کوشش کی۔ نہیں ملا۔ یہ بات مجھے معلوم نہیں تھی۔ پیغام بھیجنے والوں کو معلوم تھی۔ ہماری ایجنسی بیشک نمبر ون ہے۔ پیغام سمجھ گیا۔ شان نزول نہ سمجھ پایا۔ جواب بھیجا مائی باپ اشارہ کس جانب ہے، کہاں کی ذلت ہے جو نگلنی ہے؟ واٹس ایپ پہ جواب ملا، “ہمارا ایک خادم ہے جو حسین بھی ہے۔ اس کی خوشی کی خاطر گندے سے یزید بن کر دکھاؤ”۔ چند لمحات کو یہ خواہش ناگوار گزری۔ اکثر بیگم کہا کرتی تھی “بچے کو اچھا سا گھوڑا بن کر دکھاؤ”۔ اور میں، بھوٹان کی سب سے بڑی عدالت کا جج بیگم کا حکم مانتے گھوڑا بن کر دکھاتا۔ میں بیگم سے نہ لڑ پایا، پنڈی وال خداؤں سے کیسے لڑ سکتا ہوں۔ بابا رحمتاں ہوں، آرنلڈ شوارزنیگر تو نہیں؟ حکم تھا لہذا کیلے پر سے آج بھی گرنا پڑا۔
پھر سوچا بزرگوں نے خوش گمانی سکھائی ہے، کیوں نہ خادم کے بارے میں اچھا گمان رکھوں۔ ویسے بھی میں نے اب تک سنا بھی نہیں کہ کن الفاظ میں حمد و ثناء فرمائی گئی۔ اتنے میں ناہنجار ہاشمی کا میسج آیا۔ کوئی ویڈیو تھی۔ کسی خادم حسین نامی باریش شخص کی۔ ناہنجار نے ویڈیو کے نیچے لکھ بھیجا “سمجھ تے تسی گئے ہوگے”۔ میں نے ویڈیو سنی۔ اور میں سمجھ گیا۔ اندر کا خبث بے قابو ہونے کو تھا۔ میرے والد شریف النفس آدمی تھے۔ دادا بھی اچھے انسان تھے۔ سور؟ جلال کے باعث ذہن ماؤف تھا۔ پنڈی پیغام بھیجا، یا خداوند جرنیل، اس قدر ثقیل الفاظ کی کیا ضرورت پیش آگئی اس خادم کے خلاف۔ واٹس ایپ میسج پہ نیلے رنگ کے دو Seen والے نشان ظاہر ہوگئے۔ جواب ندارد۔
بوجھل طبیعت کے ساتھ عدالت پہنچا۔ پتہ چلا ناہنجار ہاشمی نے ویڈیو “سینڈ ٹو آل” کے ذریعے بھیجی تھی۔ جسے دیکھو آنکھوں آنکھوں میں یہی کہے جا رہا تھا “سمجھ تے تسی گئے ہوگے”۔ بسا اوقات انسان بڑا بے بس ہوتا ہے۔ میں اکثر اپنی بیگم سے بریانی کی خواہش کا اظہار کرتا ہوں۔ سامنے آلو چاول المعروف غیر معروف طائری آجاتی ہے۔ انسان بڑا بے بس ہے۔ میرے بس میں بس ہتھوڑا تھا۔ چلایا اور ہاشمی سے کراچی کی سیٹ چھین ڈالی۔ سامنے بیٹھے واڈیا کی آنکھوں میں فیصلہ سنتے ہی ایک شیطانی مسکراہٹ سامنے آئی۔ واڈیا کے دانت دیکھ کر مجھے دندان ساز کی یاد آئی۔ فوراً پیغام بھیجا، اپنے فرزند کو کہو سوشل میڈیا پہ ناہنجار ہاشمی کے خلاف کیمپین چلا دے اور آواز اس قدر بڑھا دے کہ لوگ خادم حسین کو بھول جائیں۔ میرے اندر کا خبیث بار بار آوازیں لگا رہا تھا۔ “اؤئے سور ای اؤئے”۔
شام کو گھر آیا تو بیگم سے بریانی کی درخواست کر کے قیلولے کو چل دیا۔ خواب میں دیکھا کہ سامنے خادم حسین وہیل چئیر پہ بیٹھا ایک ہاتھ سے عصاء تھامے دوسرے ہاتھ سے مونچھ کو تاؤ دیتے وہی صدا لگا رہا ہے “اؤئے سورا، اؤئے سورا”۔ بس۔ اب تک اندر کا خبیث معدے سے باقاعدہ جنگ پہ اتر آیا تھا۔ ہڑبڑا کر پسینے پسینے اٹھا۔ بیک گراؤنڈ میں بیگم کی “کھانا ٹھونس لے رحمتے” کے احکامات صادر ہورہے تھے۔ چشم زدن میں خادم کا ڈنڈا اور مونچھ جاری تھے۔ بہرحال نہا دھو کر فارغ ہوا۔ خاموشی سے بریانی کے جواب میں طائری کھائی اور واپس جا کر سوگیا۔ طائری دیکھ کر اندر کے خبیث کو بھی رحم آگیا۔
انسان بڑا مجبور، بے بس اور لاچار ہے۔