ریاست پاکستان میں انصاف کی حالت زار دیکھ کر دل خون کے آنسو رو پڑتا ہے۔ میں نے سوچا ان حالات کا حل کیا ہے لیکن سمجھ نہیں آئی۔ فلم سازوں سے بات کی انہوں نے بتایا ہر کامیاب آدمی کے پیچھے ایک جرم ہوتا ہے۔ میں نے تین بار کامیابی سے بننے والا وزیراعظم فارغ کر دیا۔ پھر بھی شکایت ہے کہ انصاف نافذ نہیں ہو پارہا۔ میں نے تولہ برابر کرنے کے لیے جہانگیر ترین کو فارغ کر دیا، انصاف تب بھی نہیں۔ میں نے دودھ میں پانی کے خلاف ایکشن لیا تو گجر ٹیکہ لہراتے سامنے آگئے۔ میں نے مرغی پکانے پہ رائے دی تو شیف گلزار کا فون آگیا کہ میں آپ کا ہتھوڑا تھام لیتا ہوں، آپ میرا کفگیر پکڑ لیجیے۔ انصاف کیسے آئے؟
ایسا نہیں کہ میرے جج ناکام ہیں۔ میرا ایک ایک جج ہیرا ہے۔ کتنے ہیروں کا نام لوں۔ یہ دیکھیے یہ میرا بیگ ہے۔ رکیے میں کھول کے دکھاتا ہوں۔ یہ دیکھیے۔ اس بیگ میں میرے پاس ایک سے بڑھ کر ایک ہیرا پڑا ہے۔ یہ دیکھیے۔ یہ سیاہ ہیرا۔ اسے جسٹس منیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ دیکھیے خونی ہیرا۔ اس کا نام مولوی مشتاق تھا۔ یہ والا ہیرا دیکھیے۔ یہ خاکی ہیرا ہے جس کا نام عبد الحمید ڈوگر تھا۔ یہ ایک اور ہیرو میرا مطلب ہے ہیرا۔ یہ ایک جانب سے تھوڑا ٹوٹا ہوا ہے لیکن پھر بھی ہیرا۔ اس کا نام افتخار محمد چوہدری تھا۔ (روہانسی آواز میں) کتنے ہیرے دکھاؤں؟ ایک سے بڑھ کر ایک ہیرا۔ جے آئی ٹی والے پانچ ہیرے الگ ہیں۔ وہ مجھے ایک سپہ سالار نے ہدیتاً عطا فرمائے تھے۔
ہم بات کر رہے تھے ملک میں انصاف کی حالت زار کی۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا میں اکثر سوچتا رہتا ہوں کہ ہم حالات کیسے بدل سکتے ہیں۔ اس بات کا کامل جواب میرے پاس نہیں، ویسے بھی میں نے کون سی انصاف کی تحریک چلائی ہے، لیکن کوشش میں پوری کرتا ہوں کہ حل نکلے۔ میں نے میو ہسپتال کا دورہ کیا جس کا مقصد یہی فکر تھی۔ میں نے دیکھا ڈاکٹر جج سے زیادہ کام کرتا ہے مگر پیسے شیخ پنساری کے ملازم سے بھی کم ملتے ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے۔ ججوں کی تنخواہیں بھی گھٹائی۔ ۔ نہیں میرا مطلب ہے ڈاکٹروں کی تنخواہیں بھی بڑھائی جائیں۔ میو ہسپتال میں غربت کا دور دورہ تھا۔ اس قدر غربت دیکھ کر میں نے خود سے سوال کیا۔ کیا غربت مٹانے کا ایک طریقہ غریب مٹانا نہیں؟ میرے ضمیر نے جواب دیا “بابا رحمتاں، کچھ شرم، کچھ حیا”۔ پھر مجھے اس خاتون کا خیال آیا جس کے پاس اپیل کے پیسے نہیں تھے مگر پھر بھی عدلیہ نے اسے اٹھارہ سال سرکاری مہمان نوازی کا تحفہ دیا۔ آپ خود ہی بتائیں کیا عدلیہ اپنے حصے کا کام نہیں کر رہی؟ اٹھارہ سال ایک خاتون کا نان نفقہ چلانے کی راہ ہموار کرنے سے بڑھ کر غریب پروری اور انصاف کیا ہوگا؟ میں نے اگلی صبح لاہور کے ایک اور ہسپتال کا دورہ بھی کرنا تھا، لیکن صد افسوس کہ ہسپتال کا نام ایک غیر مسلم کے نام پر رکھا گیا۔ میں اس ہسپتال کا نام بھی نہیں لینا چاہتا۔
حاضرین کرام میں ایک “انصاف پسند” جج ہوں۔ آپ کو ماننا پڑے گا کہ عمران خان صاحب کی کل کی تقریر بہت اچھی تھی۔ ہم پر کوئی دباؤ نہیں (چاروں جانب محتاط نگاہوں کے ساتھ)۔ ہماری عزت و تکریم آپ سب پر لازم ہے۔ پلیز۔ میری بات سمجھیں۔ خدا رسول کو مانیں۔ ہماری عزت کریں۔ ہم جانتے ہیں ہمارے بارے میں باہر کیا کہا جاتا ہے۔ مجھے تو بتاتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے۔ دیکھیے ہماری مثال گاؤں دیہات کے بابے رحمتے جیسی ہے۔ ہمیں عوام سے امید کے کہ عوام ہمیشہ ہمیں اپنا بابا بنا کر اوپر رکھے گی۔
معذرت خواہ ہوں کہ تقریر کچھ لمبی ہوگئی۔ کسی عورت شناس مقرر نے کیا خوب کہا ہے کہ تقریر عورت کے سکرٹ۔ ۔ نہیں ایک منٹ۔ میں دوسرا کاغذ نکال لوں۔ یہ پچھلا کاغذ تھا۔ پچھلے والے پہ بیگم ناراض ہوگئی تھیں۔ یہ والا قدرے بہتر اور مردانہ ہے۔ سنیے۔ دیکھیے تقریر یوں بھی ختم نہیں ہونی چاہئے کہ شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے، اور اتنی لمبی بھی نہیں ہونی چاہئے کہ رؤف کلاسرہ کے بیان شدہ سکینڈل ذہن میں آجائیں۔ اجازت چاہوں گا۔ اللہ نگہبان۔