1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. معاذ بن محمود/
  4. بحوالہ آسٹریلین امگریشن (2)

بحوالہ آسٹریلین امگریشن (2)

متفرقات۔

آسٹریلیا کی شہریت کا راستہ پرمننٹ ریزیڈینس سے ہو کر گزرتا ہے۔ براہ راست پرمننٹ ریزیڈینس حاصل کرنا بہرحال ایک مشکل کام ہے۔ ماضی میں نو برس آسٹریلیا پر لبرل پارٹی حکمران رہی ہے۔ لبرلز امیگریشن کے حق میں نہیں لہٰذا نو برس انہوں نے آسٹریلین امیگریشن کو مشکل سے مشکل تر بنانے میں صرف کیا۔ ان کے پاس اس کے الگ جواز موجود تھے جن سے اتفاق یا اختلاف ہو سکتا ہے۔

امیگریشن کی راہ میں روڑے اٹکانے کی چند مثالیں پروسیسنگ ٹائم میں ٹھیک ٹھاک اضافہ، 189 کو چھوڑ کر 190 اور 491 ویزے کے اجراء میں اضافہ، ویزا درخواستوں کی کڑی سکروٹنی شامل ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بیک لاگ یعنی پہلے سے موجود ایسی درخواستیں جن کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے، کی تعداد بڑھتی رہی۔ 2020 مارچ میں میرا ویزا آیا۔ اس کے ٹھیک پانچ دن بعد ویزے آنا بند ہو گئے۔ اسی سال کرونا کی عفریت نے بھی دنیا بھر کو دبوچ لیا۔

ویزا درخواستوں پر جو کام جاری تھا وہ بھی قریب ڈیڑھ برس بند رہا۔ نئے لوگ آنا رک گئے تاہم اس وقت پتہ نہ چلا کیونکہ ملک لاک ڈاؤن میں تھا۔ ملک لاک ڈاؤن سے باہر نکلا تو صورتحال نارمل ہونا شروع ہوئی تاہم چونکہ آسٹریلین ورک فورس کا قابل ذکر حصہ امگرینٹس خاص طور پر سٹوڈنٹس اور تعلیم کے بعد ملنے والے ورک پرمٹ پر منحصر تھا جو پہلے بتائی گئی وجوہات کے باعث بند تھے، لہٰذا اب آسٹریلیا کو ورک فورس کی قلت کا سامنا ہوا۔

چند ماہ قبل الیکشن میں لبرلز کے نو سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ لیبر نے حکومت سنبھالی۔ لیبر پارٹی امگریشن کے حق میں ہے تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ بارڈر کھول دیں۔ آپ کو جو تاثر مل رہا ہے وہ درست نہیں۔ امگریشن زیادہ آسان کرنے کے خلاف لبرلز کا پریشر الگ ہے اور عوام کے ایک حصے کا دباؤ الگ۔ لہٰذا لیبر بھی ایک حد سے زیادہ فری نہیں کر سکتی امگرینٹس کو۔

اب افرادی قوت کو جس طرح پورا کیا جائے گا اس کا طریقہ کار سب سے پہلے تو زیادہ سے زیادہ سٹوڈنٹ ویزے جاری کر کے اور اس کے بعد زیادہ سے زیادہ ورک پرنٹ جاری کرنے پر مبنی ہو گا۔ مزید برآں ایک آدھ دن قبل ورک پرمٹ کے دورانیے میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی 189 اور 191 کی جو ویزا پروسیسنگ بند تھی وہ بھی کھل چکی ہے، سو اب پچھلا بیک لاگ کلئیر کر کے بھی اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش ہو گی۔

جو احباب اس بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے عرض ہے، کہ سٹوڈنٹ ویزے کے لیے ٹھیک ٹھاک رقم اور دیگر لوازمات درکار ہیں جو اوپر درج کی جا چکی ہیں، دوم، ورک پرمٹ یا 491 ویزا براہ راست یوں سمجھ لیں تقریباً نہیں ملتا۔ تیسرا راستہ پرمننٹ ریزیڈینس کا ہے، اس کے بارے میں بتاتا چلوں کہ پرمننٹ ریزیڈینس یہاں چار چار سال سے مقیم سٹوڈنٹس کے لیے اب بھی اس وقت ایک خواب بنا ہوا ہے۔

یقین کیجیۓ میری ہرگز ایسی نیت نہیں کہ میں کسی کے خواب چکنا چور کروں، تاہم آسٹریلین حکومت نے امگریشن کا جو طریقہ کار متعین کیا ہے اس کے حساب سے بیشک آسڑیلیا کو موجودہ قلت سے بڑھ کر ہی کمی کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے، اوپر دیے گئے طریقہ کار کے علاوہ کوئی راستہ میرا نہیں خیال کہ مل سکے۔ ایک بار پھر، یہ یاد دہانی بھی کرواتا چلوں کہ بھارت، آسٹریلیا کا سٹریٹیجک پارٹنر ہے اور ویزے کے اجراء پر بھارتیوں کی سکروٹنی کسی حد تک ہم پاکستانیوں کی نسبت کم ہوتی ہے۔

مزید یہ کہ بھارت اور چین کی آبادی اور تعلیم و تجربے کی شرح ہم سے کہیں زیادہ ہے لہٰذا درخواستوں میں تناسب اور پھر کامیابی کا تناسب بھی انہی کے لیے زیادہ ہو گا۔ لہٰذا یہ خبر ان لوگوں کے لیے شاید پھر خوشی کی نوید ہے جو پہلے سے پراسیس میں ہیں، تاہم نئے لوگوں کے لیے میرا نہیں خیال اس کا کوئی خاص فائدہ ہونا ہے۔ لگے ہاتھوں 189 اور 191 ویزا کا مختصراً پراسیس بھی بتاتا چلوں۔

سب سے پہلے آپ Australian Immi سائٹ پر اکاؤنٹ بناتے ہیں اور انہیں درکار تمام معلومات فراہم کرتے ہیں۔ اس میں وہ تمام معلومات شامل ہیں جن کی بنیاد پر آپ کو پوائینٹس ملتے ہیں۔ تمام انفارمیشن دینے کے بعد آپ کے پوائینٹس کا تعین ہوتا ہے اور آپ EoI یا Expression of Interest سبمٹ کر دیتے ہیں۔ اب آپ pool میں ہیں۔ آپ سے پہلے بھی کئی لوگ پول میں شامل تھے۔

آپ کے پوائینٹس کی بنیاد پر غالباََ ہر دو ہفتے بعد آسٹریلین سکل مارکیٹ کی بنیاد پر اس وقت تک سب سے زیادہ پوائینٹس رکھنے والی ایک مخصوص تعداد کو Invitation to Apply یا مختصراََ انوائٹ بھیجا جاتا ہے۔ انوائٹ کا مطلب یہ ہے کہ اب آپ شارٹ لسٹ اور پول سے منہا ہو چکے ہیں۔ اب آپ کے پاس غالباََ دو یا تین ماہ ہیں ان تمام معلومات کے دستاویزی ثبوت فراہم کرنے کے جن کی بنیاد پر آپ کے پوائینٹس کا تعین ہوا۔

ساتھ ہی ساتھ آپ کو فیس بھی ادا کرنی ہوتی ہے جو غالبا 4000 آسٹریلین ڈالر فی کس ہے۔ اس کے علاوہ میڈیکل بھی کم از کم امارات میں اچھا خاصہ مہنگا ہوتا ہے، میرے میس میں پانچ بندوں کا میڈیکل قریب چھ ہزار درہم میں ہوا تھا۔ یہ بھی یاد رہے کہ اگر آپ کے آخری پانچ سال پاکستان سے باہر کسی ترقی یافتہ ملک میں گزرے ہیں تو آپ کا سیکیورٹی چیک نسبتاََ آسانی سے پاس ہونے کا امکان ہے۔

انوائٹ کے بعد آپ تمام معلومات و شواہد فراہم کر کے فیس جمع کروا کے درخواست سبمٹ کرتے ہیں۔ اس کے بعد پروسیسنگ ٹائم شروع ہوتا ہے۔ میرے وقت میں یہ ٹائم کوئی دس ماہ جاری رہا۔ اس کے بعد آپ کو HAP ID فراہم کی جاتی ہے جس کے تحت آپ میڈیکل ٹیسٹ کرواتے ہیں۔ یہاں تک بات آ گئی تو سمجھ لیں 95 فیصد معاملہ ڈن ہے۔ میڈیکل ٹیسٹ کے ایک ماہ کے اندر آپ کو ایک رات اچانک خوشخبری والی ای میل ملتی ہے جسے امگرینٹس کے حلقوں میں"گولڈن ای میل" کہا جاتا ہے۔

میرے کیس میں گولڈن ای میل صبح کے چار بج کر چھتیس منٹ پر موصول ہوئی۔ کچھ منٹ تو مجھے سمجھ نہیں آئی، اور جب سمجھ آئی تو میری آنکھوں سے خوشی کے آنسو نکل پڑے۔ صبح ساڑھے چار بجے میں ابو ظہبی بنی یاس والے گھر میں چیخیں مارتا پھر رہا تھا۔ وہاں سے آسٹریلیا قدم رنجہ ہونے تک ایک داستان ہے جو پھر کبھی۔

نوٹ: مندرجہ بالا مضمون میں 189 کے علاوہ کئی معاملات پر میری معلومات بہت پختہ نہیں لہٰذا سیکنڈ آپینین لینا مت بھولیں۔