1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. معاذ بن محمود/
  4. بحوالہ بزرگ شہری

بحوالہ بزرگ شہری

آسٹریلیا کی ایک حسین بات یہاں کے بزرگ عمر طبقے کو ملنے والی عمومی عزت ہے۔ آپ اکثر ہمارے ایک مخصوص محترم طبقے کی جانب سے مغرب میں خاندانی نظام اور والدین کے لیے فکرمند دیکھتے ہوں گے۔ جس زاویے سے وہ زندگی کو دیکھتے ہیں، اپنی جگہ درست ہوں گے تاہم عزت یا ذلت اس وقت عزت یا ذلت ہوتی ہے جب دینے والا اور لینے والا کامن گراؤنڈز پر ہوں کہ ہاں عزت دی اور لی جا رہی ہے یا زلیل کیا اور ہوا جا رہا ہے۔ جہاں سے ہمارا محترم مخصوص طبقہ دیکھتا ہے وہاں سے انہیں یہ اہم اصول نظر آ ہی نہیں سکتا لہذا کوشش کرتے ہیں اس پر بات کرنے کی۔

مغرب ہر میدان میں عملیت کی جانب گامزن ہے۔ اس سفر میں اہلِ مغرب معاشرتی، روایتی اور مذہبی قداغن کو نظر انداز کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔ مثلاً بچوں کو غالباً تیسری جماعت میں سکول ہی میں ایک رات والدین سے دور رکھنے کی پریکٹس وکٹوریا کی حد تک قائم ہے جس میں بچوں کو خود انحصاری کی جانب پہلا قدم رکھنا سکھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ چھٹی کلاس میں تین سے پانچ روزہ کیمپنگ ٹرپس کروائے جاتے ہیں۔ یوں بچوں کو بتدریج تیار کیا جاتا ہے کہ وہ 18 برس کی عمر کو پہنچنے تک اپنی زندگی خود گزارنے کے قابل ہو سکیں۔

اس خود انحصاری میں مالیات بھی شامل ہوتے ہیں۔ فائنانسز کی پریکٹس بھی سکول ہی سے کروائی جاتی ہے جہاں وکٹوریا کی حد تک کلاس کرنسی کا نظام رائج ہے جس کے تحت اچھے طرز عمل پر بونس فرضی کرنسی اور ہوم ورک نہ کرنے وغیرہ پر اسی فرضی کرنسی میں فائنز کا طریقہ کار رائج ہوتا ہے۔ یوں کوشش کی جاتی ہے کہ سکول ہی سے بچہ مالی طور پر منظم رہنے کی کوشش کر سکے تاکہ بعد ازاں وہ معاذ بن محمود کی طرح مالیات کو لے کر حماقتیں کرنے کا مرتکب نہ رہے۔

آسٹریلیا میں حکومت ہر طالب علم کو نجی جامعات میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے سود سے پاک قرضے جاری کرنے کی پابند ہے۔ یہ قرضہ ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ آسٹریلین ڈالر تک ہو سکتا ہے۔ مزیدبرآں ایک طالب علم دیگر لون سکیمز کے برعکس اس قرضے کی واپسی کا پابند اس وقت ہوتا ہے جب تعلیم ختم ہونے کے بعد وہ برسرِ روزگار ہوجائے اور اس کی آمدنی ایک خاص حد سے بڑھ جائے۔ یہ سالانہ آمدنی ٹیکس ریٹرنز کے باعث ریاست کے علم میں ہوتی ہے۔ اس سے بھی دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اس قرضے کی واپسی کے لیے اقساط برسرِ روزگار فرد کی آمدنی کا کم سے کم چار فیصد اور زیادہ سے زیادہ آٹھ فیصد کی حد متعین ہے۔

یعنی ریاست اس قرض کی واپسی کے لیے جو اس نے آپ کو اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے فراہم کیا تھا، آپ کی آمدنی کے آٹھ فیصد سے زیادہ کٹوتی کرنے کی مجاز نہیں۔ آپ کی اقساط آسٹریلین ٹیکس آفس کرے گا جو ایف بی آر کے مساوی مگر پرفارمنس میں اس کے برعکس ایک بہترین سرکاری ادارہ ہے۔ لب لباب یہ کہ ریاست کی جانب سے تمام شہریوں کے لیے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہ سہولیات میسر ہیں جو عموماً پاکستان یا پاکستان جیسے ممالک میں والدین کمیٹیاں ڈال کر یا پیسے جمع کر کے یا قرض لے کر اولاد کو فراہم کرتے ہیں۔

اس کا مطلب کیا ہوا؟ اس کا پہلا مطلب یہ کہ والدین پر سے ایک بوجھ ہٹا لیا گیا اور اب وہ یہی پیسہ اپنی زندگی کے آخری حصے کے لیے خود پر لگانے کے اہل ہیں۔ یہ اس سیونگ سے الگ ہے جو ہر فرد superannuation فنڈ جو ایک طرح کا لازمی ریٹائرمنٹ فنڈ ہوتا ہے کی مد میں دوران ملازمت ہر فرد جمع کرتا ہے۔ گویا والدین مالی طور پر عمر کے آخری حصے میں آزاد ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ یہ مالی بوجھ والدین کی جانب سے انتہائی آسان شرائط پر اب اولاد کی جانب منتقل ہوچکا ہے، وہ بھی عمر کے ایسے حصے میں جہاں کام کرنے اور پیسہ کمانے کے لیے اولاد والدین کی نسبت بہترین توانائی کے حامل ہیں۔

لیکن ایسا کرنے کے لیے انہیں والدین کی فراہم کردہ چھتری سے باہر نکل کر بھاگ دوڑ کرنی ہوگی، اور بھاگ دوڑ کرنے کا مطلب اس ہڈ حرامی والے مائینڈ سیٹ سے باہر نکلنا ہوگا جس کا عینی شاہد میں پاکستان کی حد تک ایسی ان گنت مثالوں کا میں خود رہا ہوں۔ ایک اور مطلب یہ کہ ریاست کی جانب سے تعلیم بنیادی تعلیم تقریباً مفت اور اعلی تعلیم بچے کی ذمہ داری کا مطلب اولاد کا والدین سے مالی مطالبات کم سے کم اور والدین کی جانب سے اولاد پر "میں نے تیری تعلیم کا خرچہ اٹھایا اب جلدی سے نوکری کر کے ہماری خدمت کر" کے مطالبے کا جواز بھی ختم۔ مختصراً every man for himself اپنی true spirit میں نافذ رہتا ہے جس کے بیچ والدین اور اولاد کے ایک دوسرے کے لیے نہ حقوق ڈسٹرب ہوتے ہیں نہ فرائض، کیونکہ حقوق و فرائض دونوں کا بھاری حصہ ریاست اپنے ذمے لیے رکھتی ہے۔

ممکن ہے یہاں یار لوگوں کو بے حسی، ظلم یا سفاکیت نظر آئے لیکن اس کی وجہ یہی ہے کہ اکثر لوگ ریاست کی جانب سے یہ بوجھ اپنے ذمے اٹھانے کے نتائج کا عملی مظاہرہ تصور کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ پھر کچھ حالات واقعی ایسے ہوتے ہیں جہاں اولاد والدین کو یکسر نظر انداز کر کے اپنی دنیا میں مگن ہوجاتی ہے تاہم اس کے ذمہ دار اولاد یا والدین یا دونوں ہی ہو سکتے ہیں۔ عمومی حالات البتہ یہی رہتے ہیں کہ والدین سے الگ ہوکر بھی فیملیز ملنا جلنا جاری رکھتی ہیں۔ مغرب کا جو کینوس ہمارے لیے پینٹ کیا جاتا ہے اس کے تحت ہر اولاد اپنے والدین سے دور اور ہر والدین اولاد کے ساتھ رہنے کو ترستے نظر آتے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں یہ غلط العام تصور ہے۔ والدین خود ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں بلکہ ہر سیاحتی مقام پر زندگی انجوائے کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ چھوٹی عید پر ہم نے میلبرن تا ایڈیلیڈ اور پھر کینگرو آئیلینڈ چکر لگایا۔ سیاحوں کی ایک بڑی تعداد بزرگ جوڑوں پر مشتمل تھی۔

یہاں ایک اور اہم پہلو کی جانب توجہ مبذول کروانا چاہوں گا کہ یہاں بزرگ جوڑوں کی اوسط عمر بھی پاکستان کی نسبت ٹھیک ٹھاک ہوتی ہے حالانکہ کہنے کو "دیسی خوراکیں" نہایت صحت بخش ہوا کرتی تھیں۔ یہاں دیسی کے نام پر اورگینک خوراک تو موجود ہے تاہم عوام کی اکثریت مہنگی ہونے کے باعث نسبتا کم اس جانب جاتی ہے۔ یہاں بزرگ شہری ناصرف اپنا کام خود کرنے کو ترجیح دیتے ہیں بلکہ حرکت میں رہنے کی وجہ سے عموماً صحت مند بھی رہتے ہیں۔

2019 کے اعداد و شمار کے مطابق آسٹریلیا میں average life expectancy قریب 83 برس رہی۔ یہی عمر 2019 ہی میں پاکستان کے لیے 67 برس رہی۔ یقیناً اس کی کئی دیگر وجوہات بھی ہو سکتی ہیں تاہم ان وجوہات میں سے ایک اہم وجہ وقت سے پہلے "تھک گیا ہوں" مان کر ہاتھ پیر چھوڑ دینا بھی ہے۔ میرے گھر کے کھیت کھلیان یعنی نباتات کی نوک پلک سنوارے رکھنے والا مالی ڈون قریب 75 برس کا ہے۔ سابقہ ڈینٹسٹ اور اب گارڈنر۔ ڈون کی اہلیہ 85 برس کی ہیں۔ ڈون کو کام کرتا دیکھ کر میرا سانس پھولنے لگتا ہے مگر ڈون جوان چائے کھینچ کر پھر شروع ہوجاتا ہے۔

بزرگ شہریوں کی تعظیم یہاں خوب ہے اور اس کی ایک وجہ ایک بار پھر ریاست کی جانب سے اس جانب توجہ دینا ہے۔ لیکن بزرگ خود بھی یہاں ایکٹو رہنے پر زور دیتے ہیں۔ ریاست کی جانب سے تمام کاروباروں کو سینئیر سٹیزن کنسیشن کارڈ پر رعایت دینے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ سے لے کر ریسٹورینٹ تک پر رعایتی ریٹ چارج کیے جاتے ہیں۔

آج دوپہر کی ہے جب میں کسی کام سے باہر نکلا۔ راستے میں یہ بزرگ جوڑا سڑک پار کرتا نظر آیا۔ ویڈیو میں غور کیا جائے تو دوسری جانب سے بھی ایک گاڑی آتی دکھائی دے گی جو رک گئی۔ انکل آنٹی نے ہاتھ بڑھا کر شکریہ ادا کیا، جواباً میں نے اور سامنے سے آنے والی گاڑی نے ہاتھ اٹھا کر وعلیکم شکریہ ادا کیا، اس کے بعد میں نے آنے والی گاڑی کا شکریہ مجھے راستہ دینے پر ادا کیا اور پھر ہم سب اپنی اپنی راہ چل پڑے۔

واپسی پر یہی جوڑا اُس پار سے اِس پار دوبارہ سڑک پار کرتا نظر آیا۔ میں پھر سے رک گیا۔ ایک بار پھر انکل نے ہاتھ اٹھا کر شکریہ ادا کیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ معاذ صاحب عظیم انسان ہیں۔ وہ تو خیر ہیں لیکن یہ ایک نارم ہے اس خطے میں۔ یقیناً دوسرے ممالک میں بھی ہوگا لیکن چونکہ یہاں بزرگان کافی بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں اور حرکت برکت کرتے پائے جاتے ہیں لہذا یہاں ذرا زیادہ عام ہے۔

خیر۔۔ راستے میں دو بار انکل آنٹی کو حرکت میں دیکھ کر مجھے نیک شگون محسوس ہوا۔ ہو سکتا ہے یار دوست اب نیک و بد شگون اور نظر لگنے پر تنقید کریں، تو عرض ہے، ہم بھی تو لال ہوتی تسبیح برداشت کرتے ہیں، تھوڑا ہمیں بھی برداشت کر لیں تو کیا برائی ہے۔

وما علینا الا البلاغ