جی۔۔ بہت سیدھی سی چوٹ ہے۔ انسانوں کی جانب سے ایک محاورے کی صورت میں انسانوں پر، ایسے انسانوں پر اس محاورے سے جن کی بیوقوفی، ذاتی مخاصمت یا حماقت بتلانا مقصود ہو۔ اگر ایسا نہیں تو یہیں رک کر مجھ پر ایک عدد مہربانی کیجئے۔ ابھی اسی وقت اپنے خیالات سے بذریعہ کمنٹ آگاہ کیجئے، بصورت دیگر، ہم آگے چلتے ہیں۔
مروجہ تصور خدا سادہ سا ہے۔ خدا ہے جس نے کائنات کو تخلیق کیا۔ اپنے معاشرے میں یہ مروجہ تصور کو دیکھا جائے، اور ایک ایسی ہستی کو تصور کیا جائے جو اس درجے کا پچیدہ نظام تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے تو کم از کم ایسی ہستی کے اوصاف سے ہر قسم کی "ذاتی خنس" یا چونکہ پاکستان میں دلیل دیتے ہوئے بھی "نعوذ باللہ" کہنا پڑتا ہے، لہذا ایسی ہستی کے بارے میں یہ بھی ماننا ضروری ہے کہ "نعوذ باللہ" وہ ہستی ہر قسم کی حماقت سے بھی مبرا ہے۔
تو پھر جب ایسی ہستی جو آپ ہی کے نظریات کی بنیاد پر ذاتی مخاصمت سے بھی پاک ہے، لامتناہی حکمت والی ہستی بھی ہے تو پھر ایسی ہستی سے "ڈگا کھوتے توں غصہ کمہار تے" کی توقع کرنا یا ایسی سوچ دماغ میں رکھ کر مناطق و دلائل کا مینار کھڑا کرنا بھی ناصرف بذات خود ایک حماقت ہے، بلکہ اس ہستی کی تحقیر و تضحیک بھی ہے۔ یہ بات ہضم کرنے کی کوشش ضرور کیجئے گا۔
وسیب ڈوب رہا ہے۔ میری آپ کی بدقسمتی کہ ہم کچھ خاص نہیں کر سکتے۔ جو کر سکتے ہیں وہ کافی نہیں۔ جو کافی ہے وہ یقین مانیے کوئی بھی نہیں کر سکتا۔ میں جس خطے میں رہتا ہوں سیلاب کے نقصانات کا ازالہ وہاں کی ریاست فرسٹ ورلڈ کنٹری ہو کر بھی نہیں کر سکتی۔ ایسے میں ہم جو سب سے بڑھ کر کر سکتے ہیں وہ اپنی زبان سے ڈوبتے ہوئے انسانوں کا دل دکھانے سے اجتناب ہے۔
میرا خیال ہے ہم یہی کر لیں ہماری استعداد کے حساب سے کافی ہے۔ ہاں کبھی کبھار خاموشی کی قیمت مجھے اپنی ذات کی حد تک بے حسی محسوس کرواتی ہے لیکن اذیت کے بارے میں سوچنا بھی اگر کوئی سمجھے تو اذیت ناک ہے۔ پس میں سوچ تو لیتا ہوں، اس بابت بات کرنے سے گریز کرتا ہوں۔ بات کرنا مزید اذیت ناک ہے۔ جو میں کر سکتا ہوں وہ میں خاموشی سے کر لیتا ہوں۔ کسی نے سیلاب کے بارے میں میری یا کسی اور کی خاموشی کو لے فیصلہ کرنا ہے تو بصد شوق۔ میری صحت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑنا۔
تو ہم جو کر سکتے ہیں وہ کیوں نہ کریں؟ کیوں نہ ہم نے جیسے اپنی چونچ بند رکھی ہے ویسے ہی ہم ان لوگوں کی چونچ بند کروانے میں اپنا کردار ادا کریں جو ایسے وقت میں ہمیں یہ بتلانے و جتلانے کی کوشش میں جتے پڑے ہیں کہ خداوند پاک جیسی "کامل" ہستی بھی "ڈگا کھوتے توں غصہ کمہار تے" پر کاربند ہے؟
فرمایا مولانا طارق جمیل نے کہ خدا ہم سے ناراض ہے لہذا یہ سیلاب ہے۔ اب یہاں"ہم" سے مراد کون ہے؟ میں؟ آپ؟ تونسہ والے؟ لاہور والے؟ بنی گالہ والے؟ جی ایچ کیو والے؟ طارق جمیل کی اندھی تقلید کرنے والے؟
یہ "ہم" سے کیا مراد ہے؟
اگر خدا وسیب سے ناراض ہے تو میامی اور ویگاس میں اس وقت چہل پہل کیوں ہے؟ کیا وسیب کے گناہ ان سے زیادہ تھے جو خدا ان سے سہمت ہے وسیب سے ناراض؟ چلو فرض کر لیتے ہیں کہ وسیب سے کوئی ایسی خطاء ہو گئی جس نے ایسا سوچنے والوں کے خدا کو بھڑکا دیا۔ لیکن پھر اس بچے کی کیا خطاء جس کا گناہ ثواب سے عاری مردہ جسم کیچڑ سے ملا؟
مولانا طارق جمیل صاحب عرض ہے، آپ خود جس قدر بھی احمق ہوں، کم از کم ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش تو نہ کیجیے کہ خدا بھی "ڈگا کھوتے توں غصہ کمہار تے" والا وصف رکھتا ہے۔ ہاں ہوتے ہوں گے جہاں میں ایسے لوگ جو آپ کی اداکاری پر آمنت و صدقت کہہ کر ٹسوے بہانے شروع کر دیتے ہوں گے لیکن کم از کم اپنی اداکاری و دوکان داری کے چکر میں اپنے ہی وضع کردہ خدا کے بنیادی ترین تصور پر چوٹ تو نہ ماریے۔
اور اگر ایسا کرنا ہی ہے تو اوروں کا نہیں معلوم، کم از کم مجھ جیسے بدتمیز، بدتہذیب، بدلحاظ اور بدمعاش قسم کے لوگ آپ کی پگڑی سے اپنی نجاست صاف کرنا اپنا فرض ضرور سمجھیں گے۔
آپ اپنا کام جاری رکھیے، ہم اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔
وما علینا الا البلاغ