1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. معاذ بن محمود/
  4. دعا کاظمی کیس، آئیندہ کے لیے چند باتیں: حصہ اوّل۔ بلوغت

دعا کاظمی کیس، آئیندہ کے لیے چند باتیں: حصہ اوّل۔ بلوغت

میں شاذ ایسے دل دکھاتے واقعات پر قلم اٹھاتا ہوں جو فیملی یونٹ سے متعلق ہوں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک اہم وجہ میرا ان واقعات کا اپنے فیملی یونٹ سے موازنہ ہے۔ مجھے شک رہتا ہے کہ شاید میں اپنے فیملی یونٹ کی نظر سے چیزوں کو دیکھتا ہوں اور شاید مناسب یا حقائق پر مبنی رائے نہیں دے پاتا۔ ایک اور وجہ فیملی یونٹ کی اہمیت ہے۔

میرے نزدیک میرے ارد گرد تمام معاملات میں سب سے اہم معاملہ میرا گھر میری اہلیہ اور میرے بچے اور ان تینوں پر مبنی ہمارا فیملی یونٹ ہے۔ پھر جب کوئی ایسا واقعہ برپا ہوتا ہے جہاں معاشرے کے اس بنیادی فیبرک کے حصے بخیے ادھڑتے ہوئے نظر آتے ہیں تو یہ چیز مجھے دُکھی کرتی ہے اور بہرحال میں دُکھی ہونے میں عام طور پر دلچسپی نہیں رکھتا۔ مجھے ڈپریشن میں جانے کا کوئی شوق نہیں۔ نتیجہ یہ کہ میں آنکھیں بند رکھنے میں عافیت و بہتری جانتا ہوں۔

اس سب کے باوجود دعا کاظمی کے معاملے پر میں ایک عرصہ خاموش رہنے کے بعد زبان کھولنے کا فیصلہ کر رہا ہوں۔ کوشش ہے کہ ہر ممکن زاویے سے اس معاملے کا تجزیہ کیا جائے۔ ہمیں نہیں معلوم کسے کب کوئی بات سمجھ آجائے اور کس بات کی وجہ سے کسی کا خاندان اجڑنے سے بچ جائے۔ کوشش ہے کہ چند اقساط پر مبنی یہ سیریز مکمل ہو سکے تاہم وعدہ نہیں کیونکہ میرے لیے سنجیدہ ہونا ایک عدد resource hungry کام ہے جو بالآخر تھکن کا باعث بنتا ہے۔ کوشش پھر بھی کیے دیتے ہیں۔ یاد رہے، میری کوشش ہے کہ دستیاب معلومات پر بات ہو ناکہ سازشی نظریوں پر۔ سازشی نظریہ ایک ایسی چیز ہے انسانی دماغ جسے کسی بھی اوپن اینڈ شٹ سیاہ و سفید معاملے میں فٹ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ سازشی نظریات پر بات پھر کبھی۔

دعا کاظمی کے واقعے میں کئی سٹیک ہولڈرز اپنا وجود رکھتے ہیں۔ ایک جانب متاثرہ بچی خود ہے، دوسری جانب دعا کے والدین، دعا کا مسلک، دعا کے والدین کا مخالف مسلک، وہ لڑکا جس سے مبینہ نکاح ہوا، پولیس، عدلیہ، میڈیا، معاشرہ اور پھر۔۔ آپ۔۔ میں!

کچھ بھی شروع کرنے سے پہلے دور بلوغت پر بات کرنا انتہائی اہم ہے۔ ہم سب کو اپنا دور بلوغت یاد ہوگا۔ جسے نہیں یاد یا جو کسی بھی وجہ سے اسے بھول چکا ہے اسے چاہیے کہ اپنی اٹھان کے دن یاد کرے۔ بلوغت میں قدم رکھتے ہوئے بچہ اپنے تشخص سے متعارف ہو رہا ہوتا ہے۔ وہ جسے ہم self being کہتے ہیں وہ اسی دور میں ابھر کر دماغ میں سامنے آنا شروع ہوتی ہے۔ بچپن میں ماں باپ آنکھیں دکھا کر سونے کا کہتے تو دکھ تو ہوتا مگر بچہ سوجایا کرتا ہے۔

بلوغت میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا "مجھے" کیوں کہا جا رہا ہے۔ یا جب "میں " ایسا نہیں چاہتا تو ایسا کیوں کیا جا رہا ہے میرے ساتھ اور پھر "اب میں نے کیسے وہ کرنا ہے جو میں چاہتا ہوں "۔ یہ "میں اور میری مرضی" کے عنصر کا احساس اسی دور یعنی دور بلوغت میں شروع ہوتا ہے۔ اس وقت دماغ میں وہ کیمیکل جو جذبات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں نسبتاً تازہ تازہ بہاؤ میں آنا شروع ہوتے ہیں۔ پیدائش کے بعد اور بلوغت سے پہلے پہلے تک انسانی دماغ کا پچھلا حصہ ڈیویلپ ہو رہا ہوتا ہے۔ یہ حصہ روزمرہ زندگی کے آپریشنز مثلاً چلنا، پھرنا، بولنا، جسم کے مختلف حصے استعمال کرنا وغیرہ سے متعلق ہوتا ہے۔

دور بلوغت میں انسانی دماغ کا اگلا حصہ خصوصاً pre frontal cortex نشونما پاتا ہے۔ دماغ کا یہ حصہ جذبات، غصے پر قابو، منصوبہ بندی وغیرہ کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ دماغ کی growth کے سفر میں یہ آخری حصہ ہوتا ہے اور یہ حصہ دور بلوغت میں نشونما پانا شروع ہوتا ہے۔

اس کا مطلب کیا ہے؟

شیرخوار کو وقت لگتا ہے یہ سمجھنے میں کہ یہ ہاتھ جو ہل رہا ہے وہ اسے ہلانے پر قادر ہے۔ اس ادراک کے بعد وہ ہاتھ کے استعمال کی کوشش شروع کرتا ہے۔ شروعات میں وہ ہر چیز آسانی سے نہیں تھام سکتا۔

کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ شیر خوار جسے ٹھیک سے کچھ تھامنا نہیں آتا، اسے فیڈر گرانے پر قابل مواخذہ ٹھہرایا جائے؟

یقیناً نہیں۔

بلوغت میں یہی کچھ جذبات، محبت، پسندیدگی، نفرت، غصے وغیرہ کے ساتھ ہو رہا ہوتا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب بچے کو احساس ہوتا ہے کہ وہ روبوٹ نہیں۔ جیسے شیر خوار کو پتہ چلتا ہے کہ ہاتھ اس کے قابو میں ہے ویسے ہی بلوغت میں قدم رکھتے ہوئے بچے کو ادراک ہوتا ہے کہ وہ بھی اپنا وجود اپنا ضمیر اپنی سوچ اپنے جذبات اپنی پسند اور اپنی ناپسند رکھتا ہے۔

دوسری جانب والدین عادی ہوتے ہیں روبوٹک قسم کے بچپنے کے۔ کہہ دیا کھاؤ تو کھاؤ۔ کہہ دیا پیو تو پیو۔ کہہ دیا اٹھو تو اٹھو۔ کہہ دیا سو جاؤ تو سو جاؤ۔

مطلب؟

مطلب کانفلکٹ۔

مطلب ٹکراؤ۔

جذبات کو سو فیصد کوئی فرد قابو نہیں رکھ سکتا یہ ایک حقیقت ہے۔ تاہم چونکہ گیارہ بارہ برس کی عمر سے انسان کا جذبات کے ساتھ انٹرایکشن شروع ہو چکا ہوتا ہے لہذا توقع یہ رکھی جاتی ہے کہ پینتیس سالہ باپ یا ماں بارہ سالہ بچے یا بچی کی نسبت کم جذباتی ہوگا۔ اصولا ہونا بھی یہی چاہئے۔

بچہ اس وقت اپنی باؤنڈریز اپنے اختیارات، اپنے مرضی کے حدود و قیود کی بابت سیکھتا ہے۔ مقولہ ہے Rome wasnt built in a day یعنی روم ایک دن میں نہیں بنا تھا۔ بچہ اس دور میں چاہتا تو لامحدود اختیارات ہے کیونکہ وہ اسے sense of accomplishment کی صورت میں خوشی اور تسکین دیتے ہیں تاہم والدین اور معاشرے کے لیے ناصرف یہ ناقابل قبول ہوتا ہے بلکہ ناقابل عمل بھی۔ لہذا یہاں سے بچے کے hit and trial and learn کا آغاز ہوتا ہے۔

بچہ لامحدود اختیار چاہتا ہے اور اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کامیاب نہ ہونے کی صورت میں اس کے دماغ کا وہ حصہ حرکت میں آتا ہے جس نے حال ہی میں کام کرنا شروع کیا ہے۔ دماغ میں کیمیکلز کا بہاؤ غیر متناسب ہوتا ہے نتیجتا بچے کا وہ ردعمل سامنے آتا ہے جس کی والدین پچھلے دس بارہ سالوں سے توقع نہیں کر رہے ہوتے۔ یہاں یہ بات نہایت اہم ہے کہ بچے کا ردعمل کتنا شدید ہے اس کا تعلق ایک ریفرنس پوائنٹ سے ہے اور یہ ریفرنس پوائینٹ وہ لوگ سیٹ کرتے ہیں جو بچے کی پیدائش سے بلوغت تک اس کی پرورش کرتے ہیں۔

مثلاً جن گھرانوں میں مار پیٹ عام ہو وہاں بچہ چار پانچ برس کی عمل سے ہی ہاتھ اٹھانا سیکھے گا یہ ایک فطری سی بات ہے۔ یہی بچہ بلوغت کے وقت جذبات کے غیر توازن کی وجہ سے جو ردعمل دے گا وہ ہاتھ اٹھانے سے آگے مزید شدید ہوگا کیونکہ اس کا ریفرنس پوائینٹ ہی ہاتھ اٹھانا تھا۔

یوں اب تک ہم نے دو باتیں اسٹیبلش کی ہیں۔

پہلی بات، بلوغت کے وقت بچے کا ردعمل غیر متناسب ہونے میں بچے کی اپنی غلطی نہیں یہ دراصل دماغ کے اس حصے کی شروعات ہیں جس نے آگے چل کر ابھی بہت پختہ ہونا ہے۔

دوسری بات، دور بلوغت میں بچے کے ردعمل کی شدت اس کی پرورش کرنے والے ارد گرد کے لوگوں (زیادہ تر والدین) کے روزمرہ آپسی معاملات و تعلقات کی شدت سے براہ راست تعلق رکھتے ہیں۔ اسی بات کو ایک اور طریقے سے کہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بچہ دور بلوغت میں اپنے ارد گرد ہر کام کے لیے رول ماڈل تلاش کرتا ہے۔ غصے میں کیا ردعمل دینا ہے وہ لاشعوری طور پر رول ماڈل سے سیکھے گا۔ کھانا کیسے کھانا ہے وہ کسی جانب دیکھے گا۔ سائینس یہ کہتی ہے کہ nature vs nurture کی بحث میں بہرحال nurture یا پرورش کا بابا اوپر رہتا ہے۔

دور بلوغت کی بہت کامن سی شکایت ہے اور جو والدین بچوں کی اس عمر سے وابستہ ہیں یا کسی دور میں رہ چکے ہیں وہ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ اس وقت سب سے زیادہ احساس یہی ہوتا ہے کہ بچے "بدتمیز" ہو رہے ہیں یا بچے "ہاتھ سے نکل رہے ہیں"۔ یقین کیجئے یہ احساس آپ کی اپنی زندگی بھی برباد کرتا رہے گا اور آپ کی اولاد کی بھی۔

بلوغت یا adolescence کے بارے میں ذاتی تجربات، مشاہدات، بچوں کے سکول کی جانب سے تاکیدات، دستیاب لٹریچر، تحقیقات وغیرہ سب ایک اہم نکتے کی جانب متوجہ کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ نکتہ ہے۔۔

You can always Talk to me!

میری عمر چھتیس برس ہونے کو ہے۔ آج بھی میری کوئی امید یا آس پوری نہیں ہوتی تو مجھے دکھ ہوتا ہے۔ ہاں زندگی بھر یہ دکھوں والے معاملات اتنے سارے سامنے آئے کہ مجھے اچھی خاصی عادت ہوچکی ہے۔ لیکن دور بلوغت میں یہ عادت کجا تجربہ ہی نہیں تھا۔ کھانے میں لوبیے کی جگہ کریلے پکنے کا مطلب عشق میں ناکامی اور عشق میں ناکامی کا مطلب قیامت ہوتا تھا۔ تب آپ کو چاہئے ہوتا ہے ایک کان۔۔ ایک سننے والا کان جسے آپ سزا و جزا کے خوف کے بغیر بات سنا سکیں۔

ہونا تو یہ چاہئے کہ والدین میں سے دونوں یا کم سے کم ایک فرد ایسے کان کے ساتھ ایسی طبیعت رکھتا ہو جو بچے کی شدید ترین غلطی کے باوجود بھی پہلے مرحلے میں کم اس کم چہرے کے تاثرات تبدیل کیے بغیر نرمی سے اسے سن سکے۔ تاہم یہاں بھی Rome wasnt built in a day والی بات اہم ہے۔ بچے کی پرورش میں دور بلوغت تک بچے کی ہر غلطی پر اگر ڈانٹ ڈپٹ اور ہمیشہ ہی ڈانٹ ڈپٹ والا معاملہ رہا ہو تو خود کو بچے کی جگہ پر رکھ کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا آپ ان پر بھروسہ کریں گے جو گلاس توڑنے پر ڈانٹ ڈپٹ کے عادی ہوں؟

دعا کاظمی کیس میں اب تک کی دستیاب معلومات بتاتی ہیں کہ دعا اپنی مرضی سے گھر چھوڑ کر گئی۔ ہم نے شور و غل سنا کہ والدین کی عزت کا ستیاناس کر دیا خاک میں ملا دی یہ ہوگیا وہ ہوگیا وغیرہ وغیرہ۔ آپ کو کیا لگتا ہے؟ سوشل میڈیا دعا کی عمر کے کتنے بچے آپ کی یہ دہائیاں سن یا پڑھ رہے ہوں گے؟ میرا خیال ہے نہ ہونے کے برابر۔ تو آپ کسے سنا رہے ہیں؟ یا کیا کر رہے ہیں؟ بین؟ رونا دھونا؟ اچھا۔۔ کر لیجیے۔ نو پرابلم۔ سن کون رہا ہے؟ وہی جن کے دماغ اصولا پختہ ہونے چاہیے ہیں مگر کسی بھی وجہ سے ہیں نہیں؟

بلوغت کے وقت بچہ جس کیفیت سے گزر رہا ہوتا ہے جب تک وہ سمجھ کر ہم بطور والدین اپنی ذمہ داریوں اور حکمت عملی کا تعین نہیں کریں گے، آپ کو لگتا ہے مستقبل میں ایسے واقعات کم ہوں گے؟ میرا خیال ہے نہیں۔ کسی بھی ایسے بچے یا بچی کی نظر سے دیکھا جائے جس کے والدین اس کی ذہنی کیفیت سمجھنے کی بجائے اس سے زور زبردستی پر تلے ہوئے ہیں یا مستقبل میں تل جائیں، دعا کاظمی کا کیس ایک success story ہے۔ مستقبل کا مستقبل میں پتہ چلے گا تاہم والدین سے سینگ پھنسانے کی حد تک کم از کم دعا جیسے مائینڈ سیٹ کے لیے اب تک کی پیش رفت ایک کامیابی ہی ہے۔

تو یہ سب باتیں کسے سمجھنی ہیں؟ اس بچے کو جس نے دماغ کے prefrontal cortex کا استعمال تازہ تازہ شروع کیا ہے جہاں جذبات کا بہاؤ ابھی ٹھیک سے regulate نہیں ہوا یا پھر انہوں نے جو خود اس کیفیت سے بیس تیس سال پہلے گزر چکے ہیں؟

ہمیں خود سے سوال پوچھنے پڑیں گے۔۔

1۔ بچوں کی پرورش کے دوران ہمارے اپنے اعمال کس حد تک شدید ہیں؟

2۔ ہم کس حد تک بچوں کے لیے رول ماڈل ہیں؟

3۔ کیا ہم نے گھر میں ایسا ماحول وضع رکھا ہے جس میں بچہ اپنی ہر بات آپ سے کر سکتا ہے؟

4۔ بچے کا جھوٹ یا کوئی غلط کام پکڑا جاتا ہے تو ہم اس پر کیا ردعمل دیتے ہیں؟ ایسا کہ آئیندہ وہ مزید innovative طریقے سے جھوٹ بول سکے یا ایسا کہ کل کو اسے اپنی غلطی تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہ ہو؟

5۔ اگر ہمارے بچے دور بلوغت کو پہنچ رہے ہیں یا پہنچنے والے ہیں تو کیا ہم نے اب تک ایسا سوچا ہے کہ جیسے شیر خوار کھانا گرائے بغیر کھانے سے قاصر رہتا ہے ویسے ہی لڑکپن یا بلوغت میں بچے جذبات پر مکمل قابو پانے کی صلاحیت نہیں رکھتے؟

6۔ کیا آپ کو اپنا دور بلوغت یاد ہے؟ نہیں تو کیا آپ نے اس وقت جب آپ کے بچے اس دور سے گزر رہے ہیں، اپنا وقت یاد کرنے کی کوشش کی؟

(شاید) جاری ہے۔۔