1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. معاذ بن محمود/
  4. الیکشن سے سیلیکشن تک

الیکشن سے سیلیکشن تک

2013 الیکشن سے شاید چند روز قبل کا دور تھا۔ میں دبئی نیا نیا آیا تھا مطلب چند ماہ ہی ہوئے تھے۔ کرامہ پر تب فلی کیفے ہوا کرتا تھا۔ یہ دیسیوں کا گڑھ تھا۔ انڈین اور پاکستانی عوام یہاں عام طور پر اور بالخصوص ویک اینڈ پر خوار ملتی۔ گاڑی پارک کرنے پر بھی تو تو میں میں ہوتے دیکھی اور سیٹ ملنے پر بھی۔

الیکشن جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے مئی کے مہینے میں ہونے تھے۔ جنوری 2013 میں دبئی قدم رنجہ ہونے سے مئی تک تھوڑی بہت دوستیاں بن چکی تھیں۔ کم از کم اتنی ضرور کہ فلی کیفے میں آٹھ دس لڑکے بیٹھے رات گئے تک گپیں ضرور ہانک سکتے تھے۔ تب تک ایک آدھ بندے کے سوا کسی نے گاڑی نہیں لی تھی لہذا منخول سے کرامہ تک ہی دوڑ لگتی یا بذریعہ میٹرو کسی مال کی۔

اس رات فلی کی چائے کے ساتھ سیاسی بحث چھڑ گئی۔ جو احباب کرامہ کی چہل پہل اور فلی کی چائے سے واقف ہیں وہ یقیناً سمجھتے ہوں گے کہ یہ کیسا کمال کا چسکا ہوتا ہے خاص کر جب اس میں سیاسی بحث کا تڑکہ بھی لگ جائے۔

اس شام میں اکیلا پٹواری تھا۔ تین چار لڑکے متحدہ کے، ایک جیالہ اور باقی یوتھیے۔ جی ہاں انصافی نہیں یوتھیے۔ اچھا میں 2006 دسمبر سے فیس بک پر موجود ہوں لہذا میں نے سیاسی جماعتوں کے مقلدین کا ارتقاء ناصرف دیکھا بلکہ تجربہ بھی کیا ہے۔ یہ اگست 2016 کے بعد سے متحدہ کو نتھ ڈالی گئی ہے وگرنہ سوشل میڈیا پر اہل یوتھ سے بڑھ کر مہان ہوا کرتے تھے دو قبیل، ایک متحدہ اور ایک جماعتِ اسلامی۔

بیچ میں طاہر القادری سے جھولتی عوام بھی مصنوعی طور پر ڈلڈو بنا کر بھیجی گئی تاہم inorganic change زیادہ لمبا ٹھہر نہیں سکتا جس کی ایک مثال اس وقت تحریک انصاف کی حالت ہے۔ بتانا البتہ یہ مقصود ہے کہ یہ جو متحدہ کی سوشل میڈیا پر موجودگی آج تحریک انصاف پر جگتیں بناتی ہے، جناب والا یہ کم از کم 2013 الیکشن میں ان کے بھائی بھائی بنے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ یہ بات سوشل میڈیا کی حد تک بھی درست تھی اور فلی کیفے کی اس محفل کی حد تک بھی درست۔

خیر بات ہو رہی تھی سیاسی گپ شپ کی۔ سو میں اکیلا وِد دس گیارہ ادرز۔۔ اب سارے مہان انسان، جیسا کہ ہم پاکستانیوں کا وطیرہ ہے، چار مل جائیں تو اگلے کو زچ کرنے کی کرتے ہیں۔ یہ بھی مجھے بولنے نہ دیں، میں بات کروں تو "پے" جائیں۔ خیر بحث چلتی رہی چلتی رہی چلتی رہی۔ آخرکار نشست کی برخواستگی کا لمحہ آن پہنچا۔

اب تین چار ان میں سے تھے کٹر "کاش خان صاحب میرے ابو ہوتے" قسم کے یوتھیے۔ ہم جب واپس گھر کی طرف نکلنے کو سیٹوں سے اٹھے تو یہ تین چار لوڑو فرط جذبات میں سیاسی طور پر آرگیزمک ہوکر نعرے لگانے لگے۔۔

عمران خان زندہ باد

پی ٹی آئی زندہ باد

آئی آئی پی ٹی آئی

اور دیگر اسی قماش کے ڈکیاپوں سے بھرپور نعرے وغیرہ وغیرہ۔

اب سیاسی بحث تک بات سمجھ آتی ہے۔ یہ نعرے بازی وہ بھی دبئی میں کھڑے ہوکر میرے لیے نیا تجربہ تھا۔ مجھے ہنسی بھی آئے اور عجیب بھی محسوس ہو۔ بہرحال میں سنتا رہا مسکراتا رہا۔ نکلتے ہوئے البتہ میں ایک بات ضرور کہہ آیا۔۔

"اگلے ہفتے جب الیکشن کا نتیجہ سامنے ہوگا ہم پھر اسی جگہ ملیں گے۔۔ اور یقین کریں جو بھی جیتے مزا طبیعت سے آئے گا"

اور وہی ہوا۔۔

2013 جنرل الیکشن مسلم لیگ جیت گئی۔ اس کا فی الفور شاخسانہ یہ نکلا کہ کئی کزن، پاکستان کے اچھے دوست اور سوشل میڈیا پر احباب توا ہوکر بلاک کر گئے۔ ناصرف یہ بلکہ فلی کیفے والی محفل بھی جنرل الیکشن نتائج کی یہ تاب نہ لا سکی۔ میں نے وال پر جا کر فقط "ھاھاھاھاھاھاھا" ہی پوسٹ کیا اور اوجھڑ ناتھ کی فتح بلاک کر گئے۔

فلی کیفے میں الیکشن کے بعد ایک اور محفل کا انتظام ہوا تاہم پچھلی بار کے برعکس اس بار محفل کا واحد و یک نکاتی ایجنڈا بہت سادہ تھا۔۔ اور یہ تھا۔۔

"ھاھاھاھاھاھاھاھاھاھاھاھاھاھاھاھاھاھاھاھاھاھاھاھاھا"

تو میرے سوشل میڈیائی حضرات و خواتین۔۔ بات یہ ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا البتہ کل رات شہباز گل اور رمیش کمار کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ سیاست کی مقعد میں دلے کم از کم دو تو ہیں (یہ لفظ میں نے نہیں شہباز گل اور رمیش کمار نے ایک دوسرے کے لیے استعمال کیا)۔ اب جب سیاست کے سینے میں دل نہیں تو بھیا آپ کو کیا پڑی تھی کہ مدحت خان یا نواز یا زرداری میں ہلکان ہونے کی، جذباتی ہونے کی یا نعرے مارنے کی؟

اور جب ایسا کر ہی لیا تو صاحب۔۔ اب انجوائے کیجیے۔۔ اب ہم لیں گے چسکے۔۔ اور اس کے لیے ہمیں زیادہ محنت نہیں کرنی۔۔ بس اتنا کہنا ہے کہ۔۔

"ھاھاھاھاھاھاھاھاھاھاھاھاھاھاھاھاھاھاھاھاھاھاھاھاھا"