1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. معاذ بن محمود/
  4. غلطیوں کا سدھار

غلطیوں کا سدھار

یہ 2022 ہے۔ ایڈیلیڈ نسبتا پرانا شہر ہے۔ پرانے سے مراد ایڈیلیڈ سٹی میں پرانے چرچ پرانی تعمیرات دیکھنے کو میسر ہیں۔ ایک چرچ کی عمارت خوبصورت لگی تصویر کھینچی فیس بک پر لگا دی۔

ایک کمنٹ آیا کہ اس عمارت کی تاریخ لکھا جائے کہ کیسے یہاں کے اصل باسیوں یعنی آسٹریلیا کے ایبوریجنلز کے علاقوں پر قبضہ کر کے آسٹریلیا بسایا گیا۔

مجھے ہنسی آگئی۔ زیادہ نہیں بس اتنا کہہ پایا کہ اس چکر میں بابری مسجد کی تعمیر ہاتھ روک دیتی ہے۔

آسٹریلیا سے مجھے محبت ہونے لگی ہے۔

کیوں؟ بتاتا ہوں۔

1970 تک ہم بنگالیوں کو کمتر ذات سمجھتے رہے۔ شعوری طور پر ویسے ہی جیسے ہم آج اپنے سوا دوسری قومیتوں کو سمجھتے ہیں۔ ہم بنگالیوں کو کمتر ثابت کرتے رہے۔ ہم ان پر پھبتیاں کستے رہے۔ ہم ان پر آج بھی جب جہاں موقع ملتا ہے لطیفے بناتے ہیں۔

گویا ہم نے "تہذیب" کا لبادہ اوڑھا حالانکہ اس تہذیب کے نیچے ہم اپنے تعصب میں ننگے تھے، ہیں اور رہیں گے۔

ایک وقت آیا کہ بنگالیوں نے ہمیں ہماری اوقات یاد دلائی کہ میاں تم کوئی ایسی توپ شے بھی نہیں۔۔ اور ہم سے الگ ہوگئے۔ جس وقت وہ ہم سے الگ ہوئے ہم نہ اپنے زمانے کے ترک تھے نہ اپنے عہد کا تاج برطانیہ جن کی سلطنت عظمت کے کسی بھی معیار پر کسی بھی طرح پوری اترتی ہو۔ ہم صفر تھے لیکن ایک بکواس سا احساس تفاخر ہم میں موجود تھا، ہے اور ممکن ہے، رہے بھی۔

بابری مسجد کے دور سے کہیں پہلے ہند کی سرزمین پر ہندی ثقافت مذہب معاشرت موجود تھی تاوقتیکہ ہند کے ایک قابل ذکر حصے پر مسلم حکومت کا نفاذ نہ ہوا۔ پھر وقت کا پہیہ چلا۔ ایک وقت آیا کہ اکھنڈ بھارت کے ٹکڑے ہوئے اور پھر دو میں سے ایک حصہ مزید تقسیم ہو کر بنگلہ دیش اور پاکستان بن گیا۔ کیوں بنا مجھے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ بس اتنا کہنا لازم ہے کہ جہاں آج پاکستان ہے جہاں آج98 فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے وہاں اسلام کی آمد سے قبل مسلمان موجود نہ تھے۔ آج جہاں بیٹھ کر ہم ارظغرل کی ٹی سی کرتے نہیں تھکتے کبھی اشوکا کی سلطنت موجود ہوتی تھی۔

ہم متعصب ہیں۔

کیوں؟ کیونکہ ہم اپنی آمد سے قبل ان کے وجود کو یاد رکھنا تو کجا acknowledge کرنے کو بھی تیار نہیں۔

لیکن یہ تو کم و بیش ہر قوم کی تاریخ کا حصہ ہے، درست؟

جی بالکل درست۔

اب سے قریب ایک صدی پیچھے چلے جائیں تو پلٹ کر دیکھنے میں دور تلک خون خرابہ ہی نظر آتا ہے۔ تاریخ ہمیشہ فاتح ہی لکھتا ہے۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ انسانی حقوق کے حالیہ علمبردار ممالک ماضی میں ظلم و ستم کے مرتکب رہے ہیں۔ وجہ وہی کہ اس زمانے میں انسانی تہذیب اپنے ارتقاء کے خونی حصے میں تھی۔

لیکن آج تو ایسا نہیں۔

فرق کیا ہے؟

فرق ہے اپنے جرائم کا اعتراف کرنے یا نہ کرنے کا۔

ایک بیان سنیے جو آسڑیلیا کی ہر عمارت کا ہر تقریر کا ہر بیانیے کا ہر دستاویز کا ابتدائی حصہ ہے۔۔

I begin today by acknowledging the Traditional Custodians of the land on which we gather/meet today, and pay my respects to their Elders past and present. I extend that respect to Aboriginal and Torres Strait Islander peoples here today.

گورے نے نو آبادیاتی نظام کے دوران دنیا پر قبضہ کرنے کی پوری کوشش کی۔ ہماری نسبت گورا اس عمل میں اچھا خاصہ کامیاب بھی ہوا۔ لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ گورے نے اعتراف کر کیا کہ ہاں اس دور میں ہم نے جو کیا وہ غلط تھا۔ آسٹریلین حکومت1905 سے1947تک ایبورجنلز سے ان کے بچے چھینتی رہی۔ ایک سرکاری اندازے کے مطابق اس دورانیے میں حکومت کی جانب سے دس سے تینتیس فیصد ایبورجنلز بچے باقاعدہ سرکاری پالیسی کے تحت والدین سے جدا کیے گئے۔ آج حکومتی سطح پر سرکاری سطح پر برپا کیے گئے اس اغوا کو The Stolen Generations کہہ کر پکارا جاتا ہے۔

آج آسڑیلیا میں3 اعشاریہ3 فیصد آبادی آسٹریلیا کے native aboriginals ہیں۔ یہاں aboriginals سے مراد وہ لوگ ہیں جو یورپی اقوام کی جانب سے آسٹریلیا میں قدم رنجہ ہونے سے پہلے یہاں کے باشندے تھے۔ ریاست کا حکومتی نظام جمہوریت ہے۔97 اعشاریہ7 فیصد وہ لوگ ہیں جو aboriginal نہیں ہیں۔ گویا aboriginals ریاست میں نافذ نظام کے تحت تو حکومت میں نہیں آسکتے۔ اس کے باوجود پورا آسٹریلیا aboriginals کو elders اور traditional custodians of the land کہہ کر پکارتا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں ایبوریجنلز کے لیے حکومت کی جانب سے رعایت ہے، آسانی ہے۔ آپ جو سرکاری فارم پر کریں آپ کو ایک ٹک مارک پر نشان لگانا ہوتا ہے کہ آپ ایبوریجنل یا indigenous Australian تو نہیں کیونکہ ایسا ہے تو آپ خصوصی رعایات و مراعات کے اہل ہیں۔

اس کے باوجود ایبوریجنلز ہر برس آسٹریلیا ڈے پر احتجاج کرتے ہیں۔ یقین کیجیے ایسا کرنے سے کبھی وہ غداری کی صف میں نہیں کھڑے ہوتے، کبھی ریاست آسٹریلیا کی سالمیت کو خطرہ نہیں ہوتا، کبھی منافرت پیدا نہیں ہوتی۔

میں یاد دہانی کرواتا چلوں، آسٹریلیا کا شمار ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے جہاں پیسے سے زیادہ اصول اور قانون کی اہمیت نسبتا زیادہ ہے۔ ظاہر ہے، کاملیت ہر ریاست ہر حکومت کا ہدف ہوتی ہے مگر ایک پرفیکٹ یوٹوپیا بہرحال ممکن نہیں۔ اس کے باوجود یہاں اپنے ماضی کی غلط کاریاں تسلیم کی جاتی ہیں۔ ہر برس National Sorry Day منایا جاتا ہے جس کی بنیاد The Stolen Generations ہیں۔

آسٹریلیا اپنے ایک اور بھنڈ کو بھی ببانگ دہل قبول کرتا ہے اور وہ ہے White Australia Policy جس کے تحت1901 سے1949 تک حکومتی پالیسی کے تحت سفید فارم یورپی نسل کے علاوہ آسٹریلیا کے دروازے باقی دنیا پر بند رہے۔ حکومت نے1949 تا1973 کے دوران اس پالیسی کو بتدریج ختم کیا۔2019 میں آسٹریلیا کی34 فیصد آبادی immigrants پر مشتمل رہی۔

انہوں نے اپنی غلطیوں سے سیکھا اور انہیں تسلیم کیا ہے۔

گزشتہ رات نیٹ فلکس پر فلم The Nightingale دیکھنے کا موقع ملا۔ فلم1825 میں آسٹریلیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر بنائی گئی ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح انگلینڈ آئرش عوام پر ظلم کر کے انہیں زبردستی آسٹریلیا بھیجا کرتا اور برطانوی فوج آسٹریلیا کے مقامی باشندوں پر کس کس طرح مظالم ڈھایا کرتی۔ آئرش خاتون کلیرا کی نومولود اولاد اور اس کے شوہر کو اس کی آنکھوں کے سامنے قتل کر کے اس کا ریپ کیا جاتا ہے جس کے بعد وہ انتقام کی آگ لیے ایک ایبورجنل کے ساتھ تسمانیہ کے جنگلات کا سفر کرتی ہے۔ نہایت کمال فلم ہے موقع ملے تو لازمی دیکھے جانے کے قابل ہے۔ اس سے پہلے لمیٹڈ سیزن آپریشن بفلو Operation Buffalo بھی مقامی آبادی پر مظالم کی عکاسی کر چکا ہے۔

بھیا یہ ناصرف اپنی غلطیاں مانتے ہیں بلکہ اپنے جرائم بھی مانتے ہیں اور اس پر کھل کے بات بھی کرتے ہیں۔

کیا ہم بنگلہ دیش یا بلوچستان پر کبھی اس طرح کھل کر بات بھی کر پائیں گے؟ کیا ہم بلوچستان یا بنگلہ دیش پر ایسی فلم یا ڈرامے بنا پائیں گے؟

جواب ہے نہیں۔

اور جب تک ہم ایسا کرنے کی اخلاقی جرات پیدا نہیں کر لیتے، میرا خیال ہے ہمیں اپنے طنز اپنے طعنے اپنی ذات تک محدود رکھنے چاہیے ہیں تاکہ کوئی ہم سے اس تاریخ کا نہ پوچھ ڈالے جس سے ہمارا بابا نیچے ہوتا ہو۔

وما علینا الا البلاغ